عرفان القرآن اور جدید سائنسی علوم: دیگر تراجم کیساتھ ایک تقابلی مطالعہ (شیخ عبدالعزیز دباغ)

زبان (Language) اظہار اور ابلاغ کا وہ ذریعہ ہے جو قدرت نے صرف انسان کو عطا کیا ہے۔ سیاسی، معاشی اور معاشرتی معاملات میں جو کوئی زبان کا بطور Tools استعمال سیکھ لے وہ مطلوبہ نتائج کم وقت میں اور کم کوشش سے حاصل کر سکتا ہے۔ زبان کا استعمال انسان درسگاہوں سے کم اور اپنے ماحول سے زیادہ سیکھتا ہے۔ کسی معاشرے کی کامیابیاں اور ناکامیاںماحول پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔ اس طرح لوگوں کے پیرا یۂ اظہار، لب و لہجے اور طرزِ فکر میں تبدیلیاںآتی رہتی ہیں۔

روایتی ابلاغ اور عصری شعور

دینی علوم کا ابلاغ تمام مسلمان معاشروں کا اولین ہدف رہا ہے اور قرآن حکیم ان جملہ علوم و معارف کا سرچشمہ ہے۔ مغلیہ دور میں برصغیر میں قرآن مجید کے تراجم فارسی زبان میں ہوتے تھے۔ اس سلسلے میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا فارسی ترجمہ بطور خاص قابل ذکر ہے۔ برطانوی راج کے آخری دور میں جب فارسی کی جگہ اردو زبان نے لینا شروع کردی تو قرآن حکیم کے تراجم بھی اردو میں کئے جانے لگے۔ جیسے جیسے برصغیر کے مسلمانوں نے جدید تعلیم کے حصول کا سفر طے کیا، قرآن مجید کے بہتر سے بہتر اردو تراجم ہونے لگے، مگر تراجم عقائد کے روایتی ابلاغ کے اصول پر کئے گئے اور قرآنی حقائق کے ابلاغ کی درج ذیل دو جہتوں کا خیال نہ رکھا گیا :

1۔ قرآن حکیم کے اردو ترجمے میں عربی زبان کی معنوی وسعتوں کو ہر ممکن حد تک سمونے کی علمی، فکری، شعوری اور تبلیغی کاوش کا کیا جانا ضروری تھا مگر اس پہلو کا خیال نہ رکھا جاسکا۔

2۔ تیز رفتاری سے آگے بڑھتے ہوئے سائنسی علوم نے قرآنی اور کائناتی حقائق کی توثیق اور تصدیق کر کے جو عصری شعور تشکیل دیا اسکے ساتھ قرآنی حقائق کا ابلاغ نئے دور کی سائنسی اصطلاحوں کے ذریعے سے کیا جاتا مگر اس جہت کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔ یہ اس لئے ضروری تھا تاکہ قرآن حکیم کی حقانیت سائنسی بنیادوں پر ثابت کی جاتی۔ اس طرح نیا جنم لینے والا سائنسی ذہن ایمان و ایقان اور بندگی و طاعت کے اسلامی فلسفہ زندگی کے قریب تر ہو جاتا اور غلبہ دین حق متحقق ہوتا چلا جاتا۔

جب مولانا فتح محمد جالندھری نے ترجمۂ قرآن العظیم لکھااور بعد میںاعلیٰحضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی نے کنز الایمان کے نام سے قرآن حکیم کا اردو ترجمہ کیا تو یہ اواخر انیسویں صدی کا وہ دور تھا جب جدید سائنسی تحقیق کا سفر اپنے کٹھن ابتدائی مراحل سے دو چار تھا۔ نیز جو دریافتیں ہو رہی تھیں وہ ابھی علمائے دین تک نہیں پہنچ سکی تھیں۔

جرأت اظہار اور ٹھوس لب و لہجہ کی ضرورت

تاہم مو لانا محمود الحسن اور مولانا اشرف علی تھانوی بیسویں صدی کے اوائل اور مولانا عبدالماجد دریا آبادی، سید ابو الاعلیٰ مودودی اور دیگر معاصرین وسط بیسویں صدی کے وہ علمائے دین ہیں جن تک جدید علوم سائنس و فلسفہ پہنچ گئے تھے۔ یہ علماء دنیائے علوم قرآن کی وہ معتبر شخصیات ہیں جن کا علمی رسوخ ان کے چاہنے والے حلقوں میں آج بھی ان کے تراجم قرآن کی مسلسل اشاعتوں کا متقاضی ہے۔ یہ احباب اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ عصری شعور کا ادراک عصری پیرایۂ اظہار اور عصری لب و لہجے کا متقاضی ہوتا ہے مگر روایت کی پختہ گرفت (Strong Hold) ہمارے دینی شعور پر ہمیشہ پیوست رہی ہے۔ بیشتر علمائے دین روایت سے نہیں ہٹ سکتے۔ ندرت افکار اپنا کر، سائنسی حقائق کے پیرائے میں بات کرنے کے نتائج کا خوف انہیں ہمیشہ دامن گیر رہا ہے اور آج بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ تراجم قرآن میں کائنات کے ان حقائق کی طرف کوئی اشارہ نہیںملتا جنہیں سائنس نے صدیوں کی عرق ریزی سے دریافت کیا اور نہ ہی وہ لب و لہجہ اختیار کیا گیا ہے جو قرآنی حقائق سمجھنے میں عصر حاضرکے انسان کی مدد کرے حالانکہ عربی زبان لغوی طور پران حقائق کو کامل صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ آج کا عصری شعورروائتی ابلاغ کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ سراپا سوال بن کر بالمقابل کھڑا ہو جاتا ہے کہ سائنس نے تو یہ حقائق دریافت کئے ہیں مگر آپ کے روایتی نظریات ان کے ساتھ کوئی مطابقت کیوں نہیں رکھتے؟

ایسی صورت حال میں روایتی ابلاغ و تبلیغ سے ایمان و ایقان اور بندگی و طاعت کے اسلامی فلسفے کا فروغ نتائج پیدا نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے یقیناً ٹھوس علمی و تحقیقی بنیاد پر مبنی جرأتِ اظہار و کردار چاہیے تاکہ نئے ٹھوس حقائق کو ٹھوس زبان میں ٹھوس لب و لہجے کے ساتھ پیش کیا جائے۔ آج کے سائنسی ذہن کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ قرآن حق ہے اور سائنس اس حق کی توثیق کررہی ہے۔ یہ ہے وہ حق جو شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمدطاہر القادری نے عرفان القرآن کی شکل میں پیش کیا ہے۔ عرفان القرآن میں جدید سائنسز کے توثیق کردہ قرآنی حقائق کا عصری شعور کے ساتھ ابلاغ ہی ہمارا موضوع ہے۔

آج کے سائنسی دور کے لئے جدید ترجمہ قرآن کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ روائتی ابلاغ اور سائنس کے درمیان دوری اشاعتِ دین کا راستہ روک رہی ہے۔ ۔ ۔ اس کا کیا حل ہے؟

جدید فکر کو مسلمان کرنے کی ضرورت

اس مسئلے کا حل جدید فکر کو قرآنی حقائق سے آشنا کر کے اسے مسلمان کرنے میں پوشیدہ ہے۔ اس مقصد کے لئے قرآنی علوم و حقائق کو نئے سائنسی حقائق کے پیرائے میں پیش کرناہے۔ عصری شعور کو یہ دعوت ایمان دینے کی ضرورت ہے کہ سائنس نے آج جو کچھ دریافت کیا ہے اور جو کچھ دریافت کرتی چلی جا رہی ہے دراصل وہ حقائق چودہ سو سال پہلے خالق کائنات نے اپنے کلام میں وحی کے ذریعے اپنے آخری پیغمبر ﷺ پر نازل فرما دیئے۔ یہ حقائق اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتاب مقدس قرآن مجید میں محفوظ ہیں اور ابد تک محفوظ رہیں گے۔ سائنس دراصل وہ علم ہے جس کے حصول اور فروغ و ارتقاء کے لئے قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے انسان کو بار بار تاکید کی ہے۔ اللہ تعالٰے نے حکم دیا ہے کہ انسان کائنات کے مخفی سائنسی حقائق کو دریافت کر کے انہیں اپنی زندگی میں عملًااپنائے۔ یہی عمل تسخیرِ کائنات ہے۔

سائنسی مضامین اور قرآنی آیات

مضمون کی مطلوبہ طوالت کو مجلہ کے محدود صفحات کی وجہ سے مختصر کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا تفصیلی بحث کی بجائے نیچے درج کئے گئے سائنسی علوم کے ساتھ قرآن مجید کی سورتوں اور ان کی آیات کے حوالے دئیے گئے ہیں۔ اساس جہت میں دراصل ایک اشاریہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ موضوعات کے اعتبار سے جملہ آیات کی فہرست فراہم کر دی جائے۔ یہ مضمون بہر حال اس کابھی متحمل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ سائنس کی ہر شاخ کے ضمن میں صرف چند منتخب آیات ہی کے حوالے دیئے گئے ہیں۔ تسخیر ماہتاب، تخلیقِ انسانی، تخلیقِ کائنات اور توانائی کی لہروں کے حوالے سے تفصیل سے بات کی گئی ہے۔

کائنات مادے کی صورت پذیری سے وجود میں آئی ہے اور مادے سے تعلق رکھنے والے تمام علوم Physical Sciences کہلاتے ہیں :

علم طبیعات (Physicsسورۃ الرعد 13 : 2۔ 4) علم موسمیات (Meteorology سورۃ الاعراف 7 : 57)

آثار قدیمہ (Archeology سورۃ قٓ50 : 12۔ 14) علم طبقات الارض (Geologyسورۃ الرعد 13 : 2۔ 4)

علم فلکیات (Astronomy سورۃ الانعام6 : 96۔ 97، سورۃ الحدید 57 : 4، سورۃ نوح 71 : 15۔ 16، 19)

علم کونیات (Cosmologyسورۃ الانبیاء 21 : 30، سورۃ المومنون23 : 18، سورۃ الانشقاق 84 : 19)

علم کیمیا (Chemistry سورۃ المومنون23 : 21، سورۃ ا لنز عٰت 79 : 1۔ 5)

علم برقیات (Electronics)، علم جغرافیہ (Geography سورۃ الرحمٰن55 : 17، سورۃ المعارج 70 : 40) وغیرہ۔

انسانی اور حیوانی زندگی حیاتیات (Biology)کا موضوع ہیں جو کہ

علم حیاتیات۔ Biology(سورۃ النحل 16 : 66) علم طب۔ Medical Sciences (سورۃ النحل 16 : 69)

علم الجنین۔ Embryology (سورۃ الرعد13 : 2۔ 4، سورۃ الحج 22 : 5)

علم حیوانات۔ Zoology (سورۃ الانعام6 : 38، سورۃ النحل 16 : 68)

علم تشریح الاعضائ۔ Anatomy (سورۃ الحج 22 : 5، سورۃ المومنون 23 : 14)

علم نباتات۔ Botany (سورۃ الانعام 6 : 95، سورۃ الاعراف 7 : 57، سورۃ النحل16 : 65، سورۃ المومنون 23 : 19، سورۃ الوا قعۃ 56 : 63) وغیرہ پر مشتمل ہے۔

نفسیاتی علوم Psychological Sciences کا دائرہ کار نفسیات۔ Psychology (سورۃ الحدید 57 : 6)

صحافت۔ Journalism، قانون۔ Law (سورۃ الرعد 13 : 8، سورۃ بنی اسرائیل17 : 77، سورۃ القمر 54 : 49)

تعلیم۔ Education (سورۃ الرحمٰن55 : 4، سورۃ المجادلۃ 58 : 11، سورۃ القلم 68 : 1، سورۃ العلق 96 : 1، 3)

سیاسیات و معاشیات۔ Economics Political Science &(سورۃ البقرۃ 2 : 266۔ 267، 275، 279)

عمرانیات۔ Sociology (سورۃ البقرۃ 2 : 177، سورۃ الروم30 : 21۔ 23، سورۃ الحدید57 : 20)

اور فنون لطیفہ وغیرہ پر محیط ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قرآن حکیم کا ترجمہ کرتے ہوئے ان علوم وحقائق کا بیان پورے اعتماد سے کیا ہے۔ انہوں نے جدید عصری شعورسے ہم آہنگی پیدا کر کے پیغامِ حق کے ابلاغ کو یقینی، مو ثر اور نتیجہ خیز بنا دیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے ِجدیدفکر کو مسلمان کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ قرآن مجید میں آپ کے سائنسی اظہار، اصطلاحات، پیرائے اور لب و لہجہ کی مثالیں نذرِ قارئین ہیں۔

1۔ چاند کی تسخیر اور عرفان القرآن کا طرز بیاں

جولائی 1969ء میں امریکہ کے خلائی تحقیقاتی ادارے ’ناسا‘ (National Aeronautic Space Agency) کے تحت تین سائنس دانوں کے ہاتھوں تسخیر ماہتاب کا عظیم تاریخی کارنامہ انجام پذیر ہوا۔ اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن مجید نے چودہ سو سال پہلے اعلان کر دیا تھا :

وَ الْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَۙ۝۱۸ لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍؕ۝۱۹ فَمَا لَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۙ۝۲۰

(القرآن، الانشقاق، 84 : 18۔ 20)

’’اور قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دکھائی دیتا ہے۔ تم یقینا طبق در طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گے۔ تو انہیں کیا ہو گیا ہے کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) ایمان نہیں لاتے۔ ‘‘

لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ سے پہلے متصلاً قرآن حکیم کا چاند کی قسم کھانا اس امر کی طرف واضح اشارہ ہے کہ آگے بیان ہونے والی حقیقت چاند سے ہی متعلق ہو گی۔ مزید برآں لَتَرْکَبُنَّ میں لام تاکید اور نون ثقیلہ دونوں اظہار مقصود میں خصوصی تاکید پیدا کر رہے ہیں۔ جس سے مراد یہ ہے کہ آیت متذکرہ میں بیان ہونے والا واقعہ بہرصورت رونما ہو کر رہے گا کیونکہ یہ ترکیب مستقبل میں صدور فعل پر دلالت کیا کرتی ہے لہٰذا یہ آیت پیشینگوئی کے اعتبار سے ایک چیلنج کے طور پر نازل کی گئی ہے اور لَتَرْکَبُنَّ کے اعلان سے قبل پے در پے قسموں کا ذکر منکرین قرآن کے لئے اس چیلنج میں مزید شدت اور سنجیدگی پیدا کرنے کے لئے تھا۔ مستزاد یہ کہ لَتَرْکَبُنَّ جمع کا صیغہ ہے اور صیغہ جمع عام طور عربی زبان میں کم از کم تین کے لئے استعمال ہوتا ہے جس سے یہ حقیقت بھی آشکار ہو گئی کہ لَتَرْکَبُنَّ کے فاعل کم از کم تین افراد ہوں گے جو ایک طبق سے دوسرے طبق تک پرواز کر کے جائیں گے اور وہ غیر مسلم ہوں گے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ Apolo - 11 میں تسخیر ماہتاب کے لئے جانے والے مسافر تین ہی تھے وہ تینوں غیر مسلم تھے : نیل آرمسٹرانگ، ایڈون بز اور کولنز۔

جب تک سائنس اور ٹیکنالوجی اس قدر فروغ پذیر نہ ہوئی تھی کہ انسان زمین سے پرواز کر کے کسی دوسرے طبق تک پہنچ سکے، اس وقت تک مجازی معنوں کی بنیاد پر ہی آیت کا مفہوم بیان کیا جاتا رہا ہے کیونکہ حقیقی معنی کا اطلاق ممکن نہ تھا لیکن آج جبکہ سائنسی ترقی کے دور میں نہ صرف فضائی بلکہ خلائی حدود میں بھی انسانی پرواز نہ صرف ممکن بلکہ واقع ہو گئی ہے تو لَتَرْکَبُنَّ کا اپنے حقیقی معنی پر اطلاق آج کے عصری شعور کے ادراک حقیقت کے لئے ضروری ہو گیا۔ چنانچہ عرفان القرآن میں قرآنی حقائق کے سائنسی ابلاغ کے لئے اس کا ترجمہ بھی سائنسی پیرائے میں کیا گیاہے۔

قرآن مجید کے باقی تراجم میں اس کا خیال نہیں رکھا گیا۔ مثلاً بیان القرآن میں آیت نمبر 19 کا ترجمہ یوں کیا گیا ہے : کہ تم لوگوں کو ضرور ایک حالت کے بعد دوسری حالت کو پہنچنا ہے۔ جبکہ عرفان القرآن کا ترجمہ ہے : تم یقینا طبق در طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گے۔

2۔ تخلیق انسانی (Embryology) اور عرفان القرآن کا طرز بیاں

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَكُمْ ؕ

(القرآن، الحج، 22 : 5)

’’اے لوگو! اگر تمہیں (مرنے کے بعد) جی اٹھنے میں شک ہے تو (اپنی تخلیق و ارتقاء پر غور کرو) کہ ہم نے تمہاری تخلیق (کی کیمیائی ابتدائ) مٹی سے کی پھر (حیاتیاتی ابتدائ) ایک تولیدی قطرہ سے پھر (رِحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلق وجود سے پھر ایک (ایسے) لو تھڑے سے جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے، جس میں بعض اعضاء کی ابتدائی تخلیق نمایاں ہو چکی ہے اور بعض (اعضائ) کی تخلیق ابھی عمل میں نہیں آئی تاکہ ہم تمہارے لئے (اپنی قدرت اور اپنے کلام کی حقانیت) ظاہر کر دیں۔ ‘‘

یہی مضمون اٹھارویں پارے میں سورۃ المومنون کے علاوہ قرآن مجید میں دیگر کئی مقامات پر بھی آیا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تراب، نطفہ، علقہ، مضغہ، مخلقہ اور غیر مخلقہ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جن کی لغوی تفصیلات درج ذیل ہیں :

تراب : مٹی : چونکہ مٹی کوئی ایک عنصر نہیں بلکہ کئی کیمیائی اجزاء کا مجموعہ ہے لہذا انسان کی مٹی سے تخلیق کا اصل مفہوم مٹی کے کیمیائی اجزاء سے ہے۔

نطفۃ : تھوڑا پانی : نطف الماء۔ پانی بہہ گیا یا تھوڑا تھوڑا کرکے ٹپک گیا۔ آدمی کا مادہ منویہ جس سے جنین کی پیدائش ہوتی ہے۔ (تاج، راغب، محیط)

علقۃ : کسی بلند چیز کے ساتھ کسی چیز کو باندھ کر لٹکا دینا : المعلقۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے ساتھ خاوند نہ انصاف کرے نہ چھوڑے بلکہ لٹکائے رکھے۔ جو نک جو خون چوس لیتی ہے۔ جنین کی وہ حالت (حمل قرار پانے کے بعد دوسرے ہفتے میں Embryoblast ) جس میں وہ رحم مادر میں جونک کی طرح لٹکا ہوتا ہے اور رحم کے اندر Placenta کے اندرونی پردوں میں گردش کرنے والے خون پر پلتا ہے۔ (تاج، راغب، محیط)

مضغۃ : کسی چیز کو دانتوں سے چبانا : ابن فارس نے یہی اس کے بنیادی معانی لکھے ہیں۔ المضاع۔ جو چیز چبائی جائے۔ قرآن مجید میں مضغۃ جنین (Embryo) کی اس حالت کے لئے آیا ہے جس میں وہ گوشت کا چبایا ہوا لوتھڑا لگتا ہے (تیسرے سے آٹھویں ہفتے تک کا جنین جب وہ organo - genesis کے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے)۔ (تاج، محیط، راغب)

مخلقۃ وغیر مخلقۃ : خلق کا معنی ہے کسی چیز کے حشوو زوائد دور کرکے اسے مقررہ پیمانے کے مطابق بنانا یعنی مکمل شدہ۔ (حمل کے تیسرے مہینے سے نویں مہینے تک جنین کے جسم کے تمام ڈھانچے کی مکمل نشوو نما رو پذیر ہوتی ہے پہلے اس ڈھانچے کا نقشہ مکمل ہو جاتا ہے (مخلقہ) اور جو اعضا نا مکمل ہوتے ہیں (غیر مخلقہ) ان کی نشوونما کی تکمیل ہونے لگتی ہے)۔

یہ ہے وہ سائنسی پس منظر جس سے آج کا عصری شعور ادراک پاتا ہے۔ یہ ہے قرآن کا وہ لب و لہجہ جس سے دل و دماغ روشن ہونے لگتے ہیں۔ عصرِ حاضر کا انسان اسی کا طالب ہے۔ ایمان و ایقان کی تجلیات کا نزول شروع ہو جاتا ہے اور ذہنی افق پر آفتابِ ھدائت طلوع ہونے لگتا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اردو ترجمہ کرتے ہوئے عربی لغت اور سا ئنسی تحقیق کی باہمی معنوی قربت کو علمی معراج پر لے جا تے ہیں۔ اس طرح قرآنی حقائق قاری کے سینے میں یوں اترتے ہیں جیسے رات ختم ہوجائے اورسورج نکل آئے۔

اس ترجمے کے مقابلے میں اب آپ اسی آیت مبارکہ کے عصر حاضر کے دیگر تراجم ملاحظہ فرمائیں تاکہ آپ اس فرق سے کامل آگاہی پالیں جو عرفان القرآن کا طرۂِ امتیاز ہے۔

دیگر تراجم

٭ ’’اے لوگو! اگر تمہیں قیامت کے دن جینے میں کچھ شک ہو تو یہ غور کرو کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا مٹی سے پھر پانی کی بوند سے پھر خون کی پھٹک سے پھر گوشت کی بوٹی سے نقشہ بنی اور بے بنی تاکہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں ظاہر فرمائیں‘‘۔ (کنزالایمان از امام احمد رضا خان بریلوی)

٭ ’’اے لوگو! اگر تم (دوبارہ) جی اٹھنے کی طرف سے شک میں ہو تو ’’اس میں غور کرلو‘‘ کہ ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر بوٹی سے (کہ بعض) پوری (ہوتی ہیں) اور (بعض) ادھوری تاکہ ہم تمہارے سامنے ظاہر کردیں‘‘۔

٭ ’’لوگو اگر تم کو (مرنے کے بعد) جی اٹھنے میں کچھ شک ہو تو ہم نے تم کو (پہلی بار بھی تو) پیداکیا تھا (یعنی ابتداء میں) مٹی سے پھر اس سے نطفہ بنا کر پھر اس سے خون کا لوتھڑا بنا کر پھر اس سے بوٹی بنا کر جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی تاکہ تم پر (اپنی خالقیت ظاہر کر دیں)‘‘ (القرآن العظیم از مولانا فتح محمد خان جالندھری)

٭ ’’اے لوگو اگر تم (قیامت کے روز) دوبارہ پیدا ہونے سے شک (و انکار) میں ہو تو ہم نے (اول) تم کو مٹی سے بنایا پھر نطفہ سے( جو کہ غذا سے پیدا ہوتا ہے) پھر خون کے لوتھڑے سے پھر بوٹی سے کہ (بعض) پوری ہوتی ہے اور (بعض) ادھوری بھی تاکہ ہم تمہارے سامنے (اپنی قدرت ظاہر کردیں)‘‘ (بیان القرآن از مولانا اشرف علی تھانوی)

٭ ’’اے لوگو اگر تم کو دھوکا ہے جی اٹھنے میں تو ہم نے تم کو بنایا مٹی سے پھر قطرہ سے پھر جمے ہوئے خون سے پھر گوشت کی بوٹی نقشہ بنی ہوئی سے اور بدوں نقشہ بنی ہوئی سے اس واسطے کہ تم کو کھول کر سنا دیں‘‘۔ (تفسیر عثمانی از مولانا محمودالحسن)

٭ ’’لوگو! اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی (یہ ہم اس لئے بتا رہے ہیں) تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں( اسقاط کی مختلف حالتوں میں چونکہ تخلیق انسانی کے سب مراحل لوگوں کے مشاہدے میں آتے تھے اس لئے انہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے علم الجنین کی تفصیلی تحقیقات کی نہ اس وقت ضرورت تھی نہ آج ہے)‘‘ (تفہیم القرآن از سیدابوالاعلیٰ مودودی)

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ روایتی تراجم کس طرح سائنسی حقائق کے بارے میں خاموش ہیں۔ مولانا فتح محمد جالندھری اور اعلیحضرت کے زمانے میں علم الجنین دریافت کے مراحل میں تھا۔ مگر باقی تراجم اس دور کے ہیںجب البرٹ آئن سٹائن 1915ء میںعمومی نظریۂ اضافت پیش کر چکا تھا۔ پہلی جنگ عظیم لڑی جا چکی تھی۔ 1922ء میں مشہور سائنسدان بوہر ایٹم کی ساخت معلوم کرنے پر نوبل انعام حاصل کر چکا تھا۔ 1953ء میں جیمز واٹسن اور فرانسس کرک ڈی۔ این۔ اے دریافت کر چکے تھے۔ 1929ء میں ایڈون ہبل عظیم دھماکے کا نظریہ پیش کر چکا تھا اور 1965ء میں انسان چاند پر اتر چکا تھا۔ اس وقت کے علماء نئے علوم سے آگاہ تھے۔

اس عصری پس منظر کے ساتھ سید ابو الاعلی مودودی اپنی تفسیر میں علم الجنین کا ذکر بھی کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود اس کی تفصیلی تحقیقات کو غیر ضروری قرار دے رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟

قرآن حکیم نے تخلیق انسانی کو موضوع ہی اس لیے بنایا ہے کہ انسان کو خالق حقیقی کی قدرت کا صحیح اندازہ ہو جائے کہ جو خدا اسے قطرہ تولید سے رحم مادر میں ماں کے خون پر پلنے والا جونک کی شکل کا معلق وجود بنا سکتا ہے اور اگلے مرحلے میں چبائے ہوئے گوشت کی شکل دے سکتا ہے جس میں کچھ جسمانی اعضا کی تشکیل مکمل ہو تی ہے۔ وہ خالقِ حقیقی اسے دوبارہ بھی وجود میں لانے کی قدرت رکھتا ہے۔

اب ایک طرف قراٰن عربیًا ہے۔ عربی زبان کے جو الفاظ کلام الٰہی میں استعمال ہوئے ہیں ان کا لغوی مفہوم بعینہٖ وہ ہے جو جدید علم الجنین کی دریافت ہے۔ دوسری طرف سائنسی حقائق ہیں جن پر عصری شعور کامل یقین رکھتا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ عربی زبان کی وسعت کا احاطہ کرتے ہوئے ایسا کیا جائے جو اصل ہے اور سائنسی ہے۔ ایسا کرنے سے ہی عصر حاضر کا انسان حیات بعد الموت پر پختہ ایمان لانے کے قابل ہو گا۔ پیغام حق کا مدعا بھی یہی ہے۔ ایسی صورت میں یہ کہناکہ ان تحقیقات کی نہ اس وقت ضرورت تھی نہ آج ہے، حقیقتِ ابلاغ سے صرفِ نظر ہے۔

درحقیقت اس وقت اسقاط حمل سے سامنے آنے والی صورتوں کی وجہ سے جنین کی ان حالتوں کا علم نہیں ہوا تھا، ایسا ممکن ہی نہ تھا۔ بلکہ عربوں نے اپنی زبان کا کامل ادراک رکھتے ہوئے قرآنی حقائق کا شعور پایا۔ یہی حقائق آج کے دور میں سائنسی کہلاتے ہیں۔ جدید تحقیق ان کا مشاہدہ کر چکی ہے لہٰذا جدید علم الکلام یا سائنسی اصولِ ابلاغ پر عمل در آمد فرض ہو چکا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قرآن مجید کا ترجمہ کرتے وقت عرفان القرآن میں جدید دور کے سائنسی حقائق کے اعلیٰ تر علمی معیار اور عربی زبان پر گہری دسترس سے کام لیتے ہوئے عصر حاضر کے انسان کو قرآنی حقائق بھی سمجھائے ہیں اور کمال حکمت سے اسلامی تعلیمات کے بارے میں اس کے ذہن میں موجود شکوک و شبہات کو کھرچ کر اس میں ایمان اور یقین کا بیج بھی بویا ہے۔ یہ بیج دعوت کے موثر تسلسل سے ایمان کا تن آور اور سایہ دار شجر بن سکتا ہے۔ یہی عصر حاضر کی عظیم ترین ضرورت ہے۔

3۔ تخلیق کائنات (Cosmology) اور عرفان القرآن کا طرز بیاں

جدید سائنسی تحقیق کے مطابق آسمان اور زمین پہلے ایک اکائی تھے جیسے دھوئیں سے اٹی ہوئی کوئی آتشی گیند ہو جو پھیلنا شروع ہوئی اوربتدریج ٹھنڈی ہوتی گئی۔ اس کے اندر Gravity اور Electromagnetic interaction سے پیدا ہونے والے اخراجات کے نتیجے میں ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا۔ سائنس نے اس دھماکے کو Big Bang کا نام دیا ہے۔ قرآن حکیم نے اسے فتق سے موسوم کیا ہے۔ اس دھماکے سے آسمان اور زمین ایک دوسرے سے الگ ہو گئے اور بالائی اور زیریں خلائی اور فضائی کائناتیں وجود میں آئیں۔ خالق کائنات نے اپنی قدرت کی ان نشانیوں کو بیان فرما کر انسان کو ایمان لانے کا حکم فرمایا ہے :

درج ذیل آیاتِ مبارکہ تخلیق کائنات کے حوالے سے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری ان آیات کا ترجمہ دور حاضر میں ہونے والی تمام سائنسی ترقی کے تناظر میں کرتے ہیں۔

٭ اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ؕ وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ۝۳۰

(القرآن، الانبیاء، 21 : 30)

’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (قرآن کے بیان کردہ اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے‘‘o

لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا وَ مَا تَحْتَ الثَّرٰی۝۶

(القرآن، طہ، 20 : 6)

’’(پس) جو کچھ آسمانوں (کی بالائی نوری کائناتوں اور خلائی مادی کائناتوں) میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان (فضائی اور ہوائی کرّوں میں) ہے اور جو کچھ سطح ارضی کے نیچے آخری تہہ تک ہے سب اسی کے (نظام اور قدرت کے تابع) ہیں‘‘o

٭ وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِی الْاَرْضِ ۖۗ وَ اِنَّا عَلٰی ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَۚ۝۱۸

(المومنون، 23 : 18)

’’اور ہم ایک اندازہ کے مطابق (عرصہ دراز تک) بادلوں سے پانی برساتے رہے، پھر (جب زمین ٹھنڈی ہو گئی تو) ہم نے اس پانی کو زمین (کی نشیبی جگہوں) میں ٹھہرا دیا (جس سے ابتدائی سمندر وجود میں آئے) اور بیشک ہم اسے (بخارات بنا کر) اڑا دینے پر بھی قدرت رکھتے ہیں‘‘o

عصر حاضر کا انسان علم فلکیات اورکونیات کی تحقیقات اور دریافتوں سے کامل آگاہی رکھتا ہے۔ چونکہ صفحۂ ہستی پر صرف اسلام اور قرآن ہی علم و حکمت، ہدائت اور نجات کا واحد یقینی، سائنسی، اور سیدھا راستہ ھونے کا دعوٰی رکھتا ہے لہٰذا آج کا انسان صرف مسلمان مبلغ ہی کوعقائد کے بارے میں سائنسی بنیادوں پرچیلنج کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دیگر ادیان کے مبلغین کو یہ مسئلہ ہی در پیش نہیں۔ ان کا کام صرف عبادت گاہوں تک محدود ہے۔ اس صورتحال میں عرفان القرآن وہ ترجمہ ہے جو قرآنی آیات کی لغوی وسعت کا احاطہ کرتے ہوئے تخلیق کائنات کے بارے میں قرآنی حقائق کو واضح کرتا ہے۔ جدید سائنسی ذہن میں ایمان کی سکت پیدا کرتا ہے۔ اور سائنسی انسان کو یقین کی وہ دولت عطا کرتا ہے جس میں اسے سائنسی بنیادوں پر کوئی شک نہیں۔ اسے اس یقین سے مفر نہیں کہ ان حقائق کو اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے قرآن مجید کی صورت میں اپنے آخری رسول ﷺ پر وحی کے ذریعے نازل فرمایا تھا۔ اب ان آیات بینات کے چند معاصر تراجم ملاحظہ فرمائیں۔

دیگر تراجم

1۔ ’’کیا کافروں نے یہ خیال نہ کیا کہ آسمان اور زمین بند تھے تو ہم نے انہیں کھولا اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے‘‘۔ (الانبیاء، 30)

(ترجمہ۔ کنزالایمان از امام احمد رضا خان بریلوی)

2۔ اس کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے اور جو کچھ اس کھلی مٹی کے نیچے ہے۔ (طہٰ : 6)

(ترجمہ۔ کنزالایمان از امام احمد رضا خان بریلوی)

3۔ اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا ایک اندازہ پر پھر اسے زمین میں ٹھہرایا اور بے شک ہم اس کے لے جانے پر قادر ہیں۔ (المومنون : 18)

(ترجمہ۔ کنزالایمان از امام احمد رضا خان بریلوی)

٭ ’’کیا جو لوگ کفر(اختیار) کئے ہوئے ہیں انہیں علم نہیں کہ آسمان اور زمین ایک ہیولا تھے پھر ہم نے دونوں کو توڑ کر الگ کردیا اور ہم نے پانی سے ہر جاندار کو بنایا ہے سو کیا پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے‘‘۔ (الانبیاء : 30)

(تفسیر ماجدی از عبدالماجد دریا آبادی)

2۔ اسی کی ملک ہے جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں اور ان کے درمیان ہے اور جو کچھ زمین کے بھی نیچے ہے۔ (طہ : 6)

(تفسیر ماجدی از عبدالماجد دریا آبادی)

3۔ اور ہم نے آسمان سے اندازہ کے ساتھ پانی برسایا پھر اسے ہم نے زمین میں ٹھہرایا اور ہم اس کے معدوم کرنے پر بھی قادر ہیں۔ (المومنون : 18)

(تفسیر ماجدی از عبدالماجد دریا آبادی)

٭ ’’کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کر دیا اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں‘‘۔ (الانبیاء : 30)

(ترجمہ۔ القرآن العظیم از مولانا فتح محمد خان جالندھری)

2۔ ’’جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین ہے اور جو کچھ دونوں کے بیچ میں ہے اور جو کچھ (زمین کی) مٹی کے نیچے ہے سب اسی کا ہے‘‘۔ (طہٰ : 6)

(ترجمہ۔ القرآن العظیم از مولانا فتح محمد خان جالندھری)

3۔ ’’اور ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ پانی نازل کیا پھر اس کو زمین میں ٹھہرا دیا اور ہم اس کے نابود کر دینے پر بھی قادر ہیں‘‘۔ (المومنون : 18)

(ترجمہ۔ القرآن العظیم از مولانا فتح محمد خان جالندھری)

٭ ’’کیا ان کافروں کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ آسمان اور زمین (پہلے) بند تھے پھر ہم نے دونوں کو (اپنی قدرت سے) کھول دیا اور ہم نے (بارش کے) پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا ہے کیا (ان باتوں کو سن کر) پھر بھی ایمان نہیں لاتے‘‘۔ (الانبیاء : 30)

(بیان القرآن از مولانا اشرف علی تھانوی)

2۔ ’’اسی کی مِلک ہیں جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں زمین میں ہیں اور جو چیزیں ان دونوں کے درمیان میں ہیں اور جو چیزیں تحت الثریٰ میں ہیں‘‘۔ (طہٰ : 6)

(بیان القرآن از مولانا اشرف علی تھانوی)

3۔ ’’اور ہم نے آسمان سے (مناسب) مقدار کے ساتھ پانی برسایا پھر ہم نے اس کو (مدت تک) زمین میں ٹھہرایا اور ہم اس (پانی) کے معدوم کر دینے پر (بھی) قادر ہیں‘‘۔ (المومنون : 18)

(بیان القرآن از مولانا اشرف علی تھانوی)

٭ ’’اور کیا نہیں دیکھا ان منکروں نے کہ آسمان اور زمین منہ بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا اور بنائی ہم نے پانی سے ہر ایک چیز جس میں جان ہے پھر کیا یقین نہیں کرتے‘‘۔ (الانبیاء : 30)

(ترجمہ القرآن از مولانا محمودالحسن)

2۔ ’’اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں اور ان دونوں کے درمیان اور نیچے اس زمین کے‘‘۔ (طہٰ : 6)

(ترجمہ القرآن از مولانا محمودالحسن)

3۔ ’’اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی ماپ کر پھر اس کو ٹھہرا دیا زمین میں اور ہم اس کو لے جائیں تو لے جا سکتے ہیں‘‘۔ (المومنون : 18)

(ترجمہ القرآن از مولانا محمودالحسن)

٭ ’’کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبی کی بات ماننے سے) انکار کیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی کیا وہ ہماری اس خلاقی کو نہیں مانتے‘‘۔ (الانبیاء : 30)

(تفہیم القرآن از سیدابوالاعلیٰ مودودی)

2۔ ’’مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں اور جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں‘‘۔ (طہٰ : 6)

(تفہیم القرآن از سیدابوالاعلیٰ مودودی)

3۔ ’’اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا ہم اسے جس طرح چاہیں غائب کر سکتے ہیں‘‘۔ (المومنون : 18)

(تفہیم القرآن از سیدابوالاعلیٰ مودودی)

یہ ہے وہ واضح فرق جو عرفان القرآن اور معاصر تراجم کے درمیان ہے۔ سائنسی علوم، تحقیقات اور دریافتوں سے کامل آگاہی اور قرآن مجید کے عطا کردہ سائنسی شعور نے عرفان القرآن کے حرف حرف کو معنویت کے نور سے بھر دیا ہے اور اس کا جدید سائنسی پیرایہ موجودہ صدی اور آئندہ صدیوں کے انسانوں کو قرآن مجید کے سائنسی حقائق سے آگاہ کرتا رہے گااور رشدوہدائیت کے رزق کی تقسیم سے انسانی شعور کی جھولی بھرتا رہے گا۔

4۔ توانائی کی لہریں (Energy Waves) اور عرفان القرآن کا طرز بیاں

اللہ تعالٰے نے کائنات کو طاقت یا توانائی کے ذریعے پیدا کیا۔ سائنسی تحقیق اس کی تصدیق کر چکی ہے۔ آئن سٹائن کی ساری محنت اسی نکتے پر مرکوز رہی۔ کائنات میں توانائی کا وجود لہروں کی شکل (Wave form) میں ہے جیسے Electromagnetic waves، Gravitational waves وغیرہ۔ توانائی کی یہ وہ لہریں ہیں جن کی بدولت ایک ایٹم کے نظام سے لے کر عظیم نظام سیارگان اور کہکشائوں کے بڑے بڑے گروہوں تک کھنچائو اور توانائی اور ان کے درمیان توازن برقرار ہے اور اسی پر کائنات کی بقاء کا انحصار ہے۔

توانائی کی لہروں کا یہ نظام صرف بیرونی کائنات ہی میں نہیں، انسانی جسم میں بھی جاری ہے۔ چنانچہ انسان کے جسم کو بھی کام کرنے کے لئے توانائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ جسم کا ہر خلیہ (Cell) یہ توانائی ATP یعنی(Adenosine Tri Phosphate) کی شکل میں استعمال کرتا ہے۔ ATP بننے کے عمل کو Oxidative Phosphorylation کہتے ہیںجو کہ آکسیجن کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ جب موت وارد ہوتی ہے توآکسیجن کی فراہمی منقطع ہونے کی وجہ سے ATP بننے کا عمل Oxidative Phosphorylation ختم ہو جاتا ہے۔ اس طرح ATP پر منحصرجسم کے خلیوں کے تمام functionsمثلا Membrane Integrity Cell ختم ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً خلیہ کے Lysosomes کےenzymes آزاد (liberate) ہو جاتے ہیں جو proteins, carbohydrates, fatty acids کے covalent کیمیائی جوڑوں (Chemical Bonds) کو توڑ دیتے ہیں۔ یہ جوڑے (bonds) چونکہ electronic sharing کی بنیاد پر بنتے ہیں لہٰذا مضبوط ہوتے ہیں اور انہیں توڑنے کے لئے سخت قوت درکار ہوتی ہے۔ ان جوڑوں (bonds) کے بر عکس Ionic bonds مثبت اور منفی چارجز کے مابین electro - static attraction کی بنیاد پر بنتے ہیں لہٰذا کمزور ہوتے ہیں اور نرمی سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ دماغ کے خلیوں کے مر جانے (neuronal cell death) کے بعد nerve impulses ( الیکٹرک چارجز) کا سلسلہ بھی منقطع ہو جاتا ہے۔ اس طرح وجود کا کارخانہ ٹوٹ جاتا ہے۔ کیمیائی جوڑوں کے ٹوٹنے کے حوالے سے Chemistry Forensic کے میدان میں ہونے والی تحقیقات قابلِ توجہ ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ان سائنسی حقائق کے تناظر میں قرآن مجید کی سورہ النزعت کا ترجمہ کیا ہے۔ آپ نے جدید سائنسی علوم کی روشنی میں انسانی موت کی وہ کیمیائی ہیئت بیان کی ہے جو قرآن مجید نے صدیوں پہلے نازل فرمائی۔ جدید سائنس جانکاہ مشقت کے بعد آج ان حقائق کو دریافت کر رہی ہے۔ سورہ النزعت کی پہلی پانچ آیات اور ان کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں :

وَ النّٰزِعٰتِ غَرْقًاۙ۝۱ وَّ النّٰشِطٰتِ نَشْطًاۙ۝۲ وَّ السّٰبِحٰتِ سَبْحًاۙ۝۳ فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًاۙ۝۴ فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًاۘ۝۵

(النزعت، 79 : 1۔ 5)

1۔ توانائی کی ان لہروں کی قَسم جو مادہ کے اندر گھس کر کیمیائی جوڑوں کو سختی سے توڑ پھوڑ دیتی ہیںo

2۔ توانائی کی ان لہروں کی قَسم جو مادہ کے اندر سے کیمیائی جوڑوں کو نہایت نرمی اور آرام سے توڑ دیتی ہیںo

3۔ توانائی کی ان لہروں کی قَسم جو آسمانی خلا و فضا میں بلا روک ٹوک چلتی پھرتی ہیںo

4۔ پھر توانائی کی ان لہروں کی قَسم جو رفتار، طاقت اور جاذبیت کے لحاظ سے دوسری لہروں پر سبقت لے جاتی ہیںo

5۔ پھر توانائی کی ان لہروں کی قَسم جو باہمی تعامل سے کائناتی نظام کی بقا کے لئے توازن و تدبیر قائم رکھتی ہیںo

دیگر تراجم

٭ ان (فرشتوں) کی قَسم جو (کافروں کی جان ان کے جسموں کے ایک ایک انگ میں سے) نہایت سختی سے کھینچ لاتے ہیںo

2۔ اور ان (فرشتوں) کی قَسم جو (مومنوں کی جان کے) بند نہایت نرمی سے کھول دیتے ہیںo

3۔ اور ان (فرشتوں) کی قَسم جو (زمین و آسمان کے درمیان) تیزی سے تیرتے پھرتے ہیںo

4۔ پھر ان (فرشتوں) کی قَسم جو لپک کر (دوسروں سے) آگے بڑھ جاتے ہیںo

5۔ پھر ان (فرشتوں) کی قَسم جو مختلف امور کی تدبیر کرتے ہیںo (روایتی ترجمہ)

٭ ’’قسم ان کی کہ سختی سے جان کھینچیں اور نرمی سے بند کھولیں اور آسانی سے پھریں پھر آگے بڑھ کر جلد پہنچیں پھر کام کی تدبیر کریں‘‘۔

(کنزالایمان از امام احمد رضا خان بریلوی)

٭ ’’ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں اور ان کی جو آسانی سے کھول دیتے ہیں اور ان کی جو لڑتے پھرتے ہیں پھر لے کر آگے بڑھتے ہیں پھر (دنیا کے) کاموں کا انتظام کرتے ہیں‘‘۔

(القرآن العظیم از مولانا فتح محمد خان جالندھری)

٭ ’’قسم ہے ان فرشتوں کی (جو کافروں کی) جان سختی سے نکالتے ہیں اور جو (مسلمانوں کی آسانی سے نکالتے ہیں گویا) ان کا بند کھول دیتے ہیں اور جو تیرتے ہوئے چلتے ہیں پھر تیزی کے ساتھ دوڑتے ہیں پھر ہر امر کن تدبیر کرتے ہیں‘‘۔

(القرآن الحکیم از مولانا اشرف علی تھانوی)

٭ ’’قسم ہے گھسیٹ لانے والوں کی غوطہ لگا کر اور بند چھڑا دینے والوں کی کھول کر اور تیرنے والوں کی تیزی سے آگے بڑھنے والوں کی دوڑ کر پھر کام بنانے والوں کی حکم سے‘‘۔

(مولانا محمودالحسن)

٭ ’’قسم ہے ان (فرشتوں کی) جو ڈوب کر کھینچتے ہیں اور آہستگی سے نکال لے جاتے ہیں اور (ان فرشتوں کی جو کائنات میں) تیزی سے تیرتے پھرتے ہیں پھر (حکم بجا لانے میں) سبقت کرتے ہیں پھر (احکام الٰہی کے مطابق) معاملات کا انتظام چلاتے ہیں‘‘۔

(تفہیم القرآن از سید ابوالاعلیٰ مودودی)

ان آیات مبارکہ کا عرفان القران میں دیا گیا ترجمہ اور معاصر تراجم کے ساتھ اس کا تقابلی جائزہ پڑھ لینے کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا متر جمینِ قرآن مجید میں مرتبہ و مقام اظہر من الشمس ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید پورے عالم انسانیت کے لئے رہتی دنیا تک مدلل پیغام ہدایت ہے۔ یہ خالقِ کا ئنات کا کلام ہے جو ہر دور کے انسان کی شعوری سطح کے مطابق دنیوی زندگی، کائنات، موت، حیات بعد الموت، تسخیر کائنات اور ایمان اور اللہ کی بندگی کے تمام پہلوؤں سے متعلقہ حقائق اور صداقتوں کو واضح فرماتا ہے۔ اس کا مقصود یہ ہے کہ انسان ایمان و ایقان اور عبدیت و اطاعت کی دولت سے مالا مال ہو کر راہِ نجات اختیار کرے اور اپنی حقیقی عظمت کی بلندیوں کو چھو لے۔ آج کے دور کا انسان سائنسی حقائق کے حوالے سے بات آسانی سے سمجھتا ہے کیونکہ اس کا شعور انہیں حوالوں سے متشکل ہوا ہے۔ وہ روایتی طریق ابلاغ پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے کیونکہ روایت اور سائنسی حقائق کا معنوی بُعد اسے تعطل ابلاغ (Communication gap) سے دوچار کر دیتا ہے۔ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عرفان القرآن کی صورت میں دور حاضر کے انسان کی اس ضرورت کو پورا کر دیا ہے۔ روائت کو زندہ رکھتے ہوئے جدید علم الکلام کی راہ نکالی ہے۔ عصر حاضر کو شرابِ کہن ساغر نو میں پیش کی ہے اور بادہ گساروں کو مئے یقین پلا کرمیخانۂ ہدائت میں نمازِ خودفراموشی کا اہتمام کیا ہے۔ یہ تجدیدِ دین ہے۔ نئی صدی کے لئے دین کے ابلاغ کا نادر تحفہ۔ اس کام نے انہیں بلاشبہ اپنے دور کے مجدد کے مرتبہ و مقام پر فائز کر دیا ہے۔

صاحبِ عرفان القرآن کا اجتہادی کارنامہ

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے عظیم کاموں کے لئے ندرتِ فکر و دانش، ملکۂِ اظہار، قدرتِ ابلاغ، صفائے قلب و نظر اور معراجِ اخلاق و کردار بنیادی تقاضوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن جب تک عظیم مایہ علمی میسر نہ ہو اس طرح کی فتوحات کا تصور بھی ناممکن ہے۔ چنانچہ شیخ الاسلام ڈاکٹرطا ہرالقادری بیک وقت دینی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم پر بھی کامل دسترس رکھتے ہیں۔ فزیکل سائنسز ہوں یا سوشل سائنسز وہ کمال سہولت اور کامل آگاہی کے ساتھ معاملات کے ہر پہلو پر اثرانگیز اظہار خیال فرماتے ہیں۔ موجودہ دور میں معلومات کا جو ذخیرہ ان کے پاس دیکھنے کو ملا ہے شاید ہی کسی کے پاس ہو۔ دینی علمی نکات بیان کرتے ہوئے علم النفسیات، اقتصادیات، عمرانیات، سیاسیات، قانون، طبیعیات، کیمیا، حیاتیات غرض موضوع اور ضرورت کے اعتبار سے ہر طرح کے حوالے ان کے کلام میں یوں در آتے ہیں جیسے وہ حوالے انہیں نکات کے لئے بنے ہیں۔ ان کے اس مایہ علمی کا احساس عرفان القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے بدرجہ اتم ہوتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ اس سے زیادہ یہ تاثر بھی پڑھنے والے پر مرتب ہونے لگتا ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحبِ نظر شخصیت ہیں، دانائے راز ہیں، وقت کے ضمیر میں جھانک کر عصری حقائق کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنی ذات میں ایک شفاف آئینہ ہیں : جو دیکھتے ہیں وہ اپنے اہلِ صحبت کو بھی دکھاتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ اس طرح فیاض ہیں جیسے ان کا اپنا کچھ نہیں سب دوسروں کا ہے۔ جو لیتے ہیں بانٹ دیتے ہیں۔ اس vision اور سرمایہ فکر و نظر کا فیض عام ہمارے سامنے سرعام بٹ رہا ہے۔ عرفان القرآن کی شکل میں ترجمہ قرآن مجید کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کا vision اور عصری ادراک آپ کے فیاض قلم سے حرف حرف نکتہ نکتہ نور برساتا نظر آتا ہے۔ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ سب دے دینا چاہتے ہیں۔ یہ وہ خیرات ہے جو بہت کم آستانوں سے ملتی ہے۔

صرف یہی نہیں؛ مایہ علمی بھی ہو، وسعتِ قلب و نظر کی خداداد دولت بھی ہو اور لاکھوں قارئین و سامعین کے ساتھ ساتھ قلبی تعلق بھی؛ اس کے باوجودتحفۂ تاثیر وھبی عطاؤں ہی کا مرہون منت ہوا کرتا ہے۔ عالمی تحریک منہاج القرآن کے قائد کا لفظ لفظ حب الٰہی اور حب رسول ﷺ کی خوشبوؤں سے گندھا ہوا ہوتا ہے۔ نسبت درِ رسول ﷺ اور اہل بیت سے ہو اور مشن پیارے اللہ اور پیارے رسول ﷺ کے دین کی بنیاد پر قرآنی انقلاب برپا کرنے کا ہو، زندگی میں یہی ایک بھوک اور یہی ایک پیاس ہو اور ساری محبتیں یا دشمنیاں بھی صرف اور صرف اللہ اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کی خاطر ہوں تو زبان سے اسرار و رموز کے دھارے کیسے نہیں بہیں گے، اور قلم سے حکمت و ہدایت اور علم و عرفان کا سیلان نور کیسے نہیں برسے گا۔ رب کریم کا فضلِ خاص اور سرکارِ دوعالم کا لطف و کرم ایسی ہی سعید روحوں کو مجددِ وقت بنا دیتا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قرآن مجید کا جدید ترین پیرائے اور سائنسی لب و لہجے میں ترجمہ کر کے امت مسلمہ پر احسان کیا ہے۔ آپ نے عالم انسانیت کو آنے والے وقت کا وہ تحفہ عطا کیا ہے جو شعور کے آسمان پر آفتابِ فکر و نظر بن کر چمکتا رہے گا اور اللہ اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کی بندگی و طاعت کی راہیں منور کرتا رہے گا۔ اللہ رب ا لعزت ڈاکٹر طاہرالقادری کو عمر خضر عطا فرمائے، ان کے فیضان نظر کی چراغاں جھلملاتی رہے اور مو جودہ دور اور آنے والے زمانے کے لوگ ان کی دعوتِ فکر سے کسبِ فیض کرتے رہیں۔ آمین، بجاہِ سیدالمرسلین ﷺ۔

تبصرہ