اس سورۂ مبارکہ کا نام الفیل ہے۔ اس میں ایک رکوع، پانچ آیتیں، بیس کلمات اور چھیانوے حروف ہیں۔
مکہ مکرمہ میں عہد نبوت کے آغاز میں نازل ہوئی۔
اس سورہ میں جس واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ اس کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ واقعہ کی تفصیلات کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے۔ صرف اسی طرح ہم اس سورہ کے مقصد نزول سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔
دنیا کے نقشے پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ بحرِ احمر کے دائیں طرف یمن کا ملک ہے اور اس کے مدِمقابل دوسری طرف برِاعظم افریقہ کا ملک حبشہ ہے جسے ایتھوپیا بھی کہا جاتا ہے۔ علم انساب کے ماہرین کا خیال ہے کہ حبش کے باشندے دراصل یمن کی قوم سبا کے ہی افراد تھے جنہوں نے یمن کی خوشحالی کے دور میں یمن سے نقل مکانی کر کے اتھوپیا کے ساحل پر اپنی تجارتی منڈیاں اور مراکز قائم کر لیے تھے، زیادہ دیر تک وہ اپنی انفرادیت قائم نہ رکھ سکے۔ افریقہ کے اصلی باشندوں کے ساتھ ان کے شادی بیاہ کا سلسلہ شروع ہوگیا یہاں تک کہ نہ وہ خالص سبائی رہے اور نہ خالص افریقی بلکہ ایک مخلوط قوم بن گئے۔ اسی لیے ان کو حبش کہا جاتا ہے جس کا معنی اختلاط و امتزاج ہے۔ گویا سبائی قوم دو حصوں میں بٹ گئی: ایک حصہ اپنے اصلی وطن یمن میں اقامت پذیر رہا‘ انہیں سبائے حمیر کہا جاتا ہے اور جو لوگ ترکِ وطن کر کے یہاں آکر آباد ہوگئے انہیں سبائے حبش کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یمن کے اصلی باشندے ستاروں کی پوجا کیا کرتے تھے مختلف ستاروں کے لیے انہوں نے بڑے بڑے معبد بنوا رکھے تھے، لیکن اس زمانہ میں افریقہ، قیصر روم کے قبضہ میں تھا اور رومی عیسائی تھے۔ ان کے حکومتی اثر اور سرگرم تبلیغی کوششوں کے باعث عیسائیت کو یہاں بڑا فروغ حاصل ہوا۔ حبشہ کے باشندے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان کی اکثریت نے عیسائی مذہب کو قبول کرلیا۔ یمن میں بھی عیسائی مبلغین کی کوششوں سے نجران کے خطہ میں عیسائیت نے اپنا اثر و رسوخ قائم کرلیا۔ ذونواس حمیر کا آخری بادشاہ عیسائیت کے فروغ سے آتش زیر پا ہوگیا اور اس نے گڑھے کھدوائے، ان میں آگ جلائی اور ان عیسائیوں کو آگ میں پھینک کر جلا دیا۔ یمن کا ایک عیسائی امیر دوس بن ثعلبان جو بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا‘ وہ نجاشی بادشاہ حبشہ کے پاس فریادی ہوا۔ نجاشی نے قیصر روم سے مشورہ کیا اور یمن پر حملہ کرنے کی تیاری شروع کردی۔ بعض مورخین کہتے کہ چند عیسائی جو بچ گئے تھے وہ قیصر کے پاس قسطنطنیہ پہنچے اور وہاں جا کر اپنے بھائیوں کی داستانِ الم بیان کی۔ قیصر نے نجاشی کو یمن پر حملہ کرنے اور ان مقتولین کا انتقام لینے کی ہدایت کی۔ چنانچہ حبشی لشکر یمن پر حملہ کرنے کے لیے لیے روانہ ہوا۔ قیصر نے اپنا بحری بیڑہ فراہم کیا تاکہ یہ لشکر جرار اس کے ذریعہ بحر احمر عبور کرے۔ قیصر نے یہ رویہ کیوں اختیار کیا، اس فراخدلانہ اعانت کا محرک کیا صرف مذہبی جذبہ تھا؟ بعض مؤرخین کی رائے ہے کہ یہ محض بہانہ تھا۔ اصل مقصد یہ تھا کہ اس تجارتی شاہراہ پر اپنی گرفت مضبوط کی جائے جس کے ذریعے مشرقی ممالک کا قیمتی سامان تجارت مغربی ممالک تک پہنچتا ہے۔ اس سے پیشتر اس شاہراہ پر اہل عرب کی اجارہ داری تھی اور انہی کے انگنت اونٹوں پر مشتمل قافلے اس سامان کو بحرِ احمر کی بندرگاہ سے اٹھا کر بحر روم کے ساحل تک پہنچایا کرتے تھے۔ کئی صدیوں سے رومی للچائی ہوئی نظروں سے اس شاہراہ کو دیکھتے تھے اور محض کسی بہانہ کی تلاش میں تھے۔ عرصہ سے رومیوں اور ایرانیوں میں جنگ شروع تھی اور حالت جنگ میں اس راستہ کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ ممکن ہے قیصر کے اس اقدام کے محرک یہ دونوں سبب ہوں۔
الغرض جب حبشی لشکر حملہ آور ہوا تو شاہ یمن ذونواس نے عدن اور حضرت موت کے ساحل پر اس کا استقبال کیا اور اسے پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ حبشی وطن واپس آئے اور از سرِنو بڑے زور شور سے دوبارہ حملہ کرنے کی تیاری شروع کردی۔ اس دفعہ ذونواس ان کے حملے کی تاب نہ لاسکا‘ اس کا حمیری لشکر بری طرح شکست سے دوچار ہوا۔ ذونواس نے راہ فرار اختیار کی اور اپنا گھوڑا ایک دریا میں ڈال دیا لیکن وہیں اس کا کام تمام کردیا گیا۔ اس کے قتل کے بعد اس کا نائب ذوجدن مقابلہ کے لیے بڑھا لیکن وہ بھی مارا گیا۔ ذوالنیران نے حبشی فوج کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوا۔ اس طرح 525 عیسوی میں سارا یمن حبشیوں کے قبضہ میں چلا گیا۔ عرب مؤرخین کے نزدیک اس حبشی لشکر کے سالار کا نام ارباط تھا۔ شاہ نجاشی نے اسی کو ہاں کا والی مقرر کردیا۔ لیکن یونانی مؤرخ اس سالار کا نام اسمینیوس بتاتے ہیں اور اس وقت کے نجاشی کا نام ’الیباس‘ لکھتے ہیں۔
عربی روایات کے مطابق ارباط نے تقریباً 20 سال تک یمن پر حکومت کی۔ اس کے بعد حبشی فوج نے ایک فوجی افسر ابرہہ کی قیادت میں اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ ارباط مارا گیا اور ابرہہ یمن کا والی بن بیٹھا۔ سال کا تعین مشکل ہے البتہ ایک کتبہ جو ابرہہ کا نصب کردہ ہے اس پر 657ء یمنی سال مرقوم ہے جو عیسوی تقویم کے مطابق 543 بنتا ہے۔
نجاشی نے ابرہہ کی بغاوت اور ارباط کے قتل کی خبر سنی تو بہت غضبناک ہوا۔ قسم اٹھائی کہ وہ خاکِ یمن کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالے گا اور ابرہہ کا خون بہائے گا۔ ابرہہ نے ایک شیشی میں اپنا خون بھرا اور یمن کی کچھ مٹی ایک خریطہ میں بند کی۔ دونوں کو بادشاہ کے پاس بھیجا اور لکھا کہ میں آپ کا حلقہ بگوش غلام ہوں۔ آپ نے جو حلف اٹھایا ہے اس کو پورا کرنے کے لیے اپنا خون اور یمن کی مٹی بھیج رہا ہوں۔ آپ اس مٹی کو اپنے پاؤں سے روند ڈالیے اور میرا خون جو شیشی میں ہے اس کو زمین پر بہا دیجیے۔ ابرہہ کی اس پیشکش سے نجاشی بہت خوش ہوا اور اسے یمن کا والی برقرار رکھا۔
جب ابرہہ کو کچھ اطمینان ہوا تو اس نے یمن میں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے تحریک شروع کردی۔ بڑے بڑے شہروں میں گرجے تعمیر کیے اور یمن کے دار السلطنت صنعاء میں ایک بہت بڑا عظیم الشان گرجہ تعمیر کیا جس کو ’عرب القلیس‘ یا ’القلیس‘ کہتے ہیں۔ یہ لفظ کلیہ کا مقرب ہے۔ اس کی زیب و زینت اور آرائش پر دل کھول کر روپیہ خرچ کیا۔ ان تمام کوششوں اور اقدامات کے باوجود عیسائیت کی اشاعت میں اسے حسبِ منشا کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ اس کے سامنے ایک ایسی رکاوٹ کو اپنے راستہ سے ہٹانے کا عزم کرلیا۔ اس نے عرب کے تمام علاقوں میں منادی کرادی کہ میں نے تمہارے لیے ایک بہت خوبصورت کعبہ بنایا ہے تم وادی غیر ذی زرع میں واقع ان گھڑے سیاہی مائل پتھروں کے بنے ہوئے کعبہ کے بجائے یہاں آکر اپنا حج کیا کرو جو صنعاء کی جنت نظیر وادی میں انسانی فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے لیکن اس کی یہ دعوت صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ لوگ اس کے ہر طرح کے پراپیگنڈے کے باوجود تپتے ہوئے صحرا، بےآب وگیاہ ریگستانوں کو مستانہ وار عبور کرتے ہوئے مکہ مکرمہ حاضر ہوتے اور کعبہ مشرفہ کا طواف کر کے سکون دل حاصل کرتے۔ اس چیز نے ابرہہ کو اور مشتعل کردیا۔ اس نے قسم کھائی کہ اس گھر کو گرا کر نیست ونابود کردے گا۔ ان حالات میں ایک اور واقعہ روپذیر ہوا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ کہتے ہیں بنی کنانہ کی کسی شخص نے رات کو اس کلیسا میں جا کر قضائے حاجت کردی۔ بعض کی رائے ہے کہ چند عرب نوجوانوں نے اس کلیسا کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی، لیکن مقاتل بن سلیمان کی رائے یہ ہے کہ چند مسافر رات بسر کرنے کے لیے اس گرجا کے پڑوس میں اترے۔ انہوں نے کھانا پکانے کے لیے آگ جلائی۔ آندھی آگئی اور کوئی چنگاری اڑ کر اس گرجے میں جا پہنچی جس سے وہاں آگ بھڑک اٹھی۔ ابرہہ یہ سن کر برافروختہ ہوگیا اور اس نے مکہ پر فوری چڑھائی کا عزم کرلیا۔ چند روز میں ایک لشکر جرار کعبہ کو منہدم کرنے کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوگیا، اس کا سارلارِ اعلیٰ خود ابرہہ تھا۔ جزیرۂ عرب میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ خود یمنی امراء و سرداروں نے کعبہ مقدسہ کو بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادی۔ یمن کے ایک رئیس ذونفر نے اپنی قوم اور جملہ قبائل عرب کو ابرہہ کا مقابلہ کرنے کے لیے للکارا۔ اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے بیشمار لوگ اس کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔ گھمسان کی جنگ ہوئی۔ لیکن ذونفر کے لشکر نے شکست کھائی اور یہ خود گرفتار کرلیا گیا۔ ابرہہ اس کو اپنے ہمراہ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوا۔ جب اس کا گزر بلاد خثعم سے ہوا تو بنی خثعم کے سردار نفیل بن حبیب خثعمی نے اس کا مقابلہ کیا۔ بنی خثعم کے دونوں قبیلے شہران اور ناہث اس کے ساتھ تھے۔ لیکن انہیں بھی شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ نفیل گرفتار کرلیا گیا۔ ابرہہ نے اس کو قتل کرنے کا ارادہ کیا لیکن پھر اسے معاف کردیا۔ اس نے اس کو بھی ساتھ لیا تاکہ بلاد حجاز میں وہ اس کا دلیل کارواں بن سکے۔
جب یہ لشکر طائف کے قریب پہنچا تو اہل طائف کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں ابرہ ان کے مندر کو منہدم نہ کردے جس میں ان کے معبودلات کا بت نصب تھا، چنانچہ وہاں کے رؤسا ابرہہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسے بتایا کہ ہمارا یہ معبد وہ نہیں جس کو گرانے کا تم نے قصد کیا ہے بلکہ وہ آگے مکہ میں ہے اور ہم اس سلسلہ میں آپ کی ہر خدمت بجا لانے کے لیے تیار ہیں۔ چنانچہ ابرہہ نے ان کو اطمینان دلایا، ان کی عزت وتکریم کی۔ انہوں نے ابو رغال کو اس کے ہمراہ بھیجا تاکہ وہ راستہ بتائے اور کعبہ کی نشاندھی کرے۔ جب ابرہہ اپنے لشکر جرار کو ساتھ لیے مکہ کے نزدیک وادی مغمس میں خیمہ زن ہوا تو اس کے لشکریں نے مار دھاڑ شروع کردی۔ بھیڑ، بکریاں اور اونٹ جو چیز ان کے ہتھے چڑھی ہانک کر وہ اسے اپنے پڑاؤ میں لے آئے۔ اس لوٹ کے مال میں حضرت عبدالمطلب کے دو صد اونٹ بھی تھے۔
ابرہہ نے حمیر قبیلہ کے حناط نامی ایک شخص کو مکہ بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں کو یہ بتائے کہ ابرہہ ان سے جنگ کرنے لیے نہیں آیا بلکہ خانہ کعبہ کو گرانے آیا ہے۔ اگر اہل مکہ نے مزاحمت نہ کی تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا لیکن اگر انہوں نے مزاحمت کی تو پھر نتائج کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔ حناط مکہ گیا۔ اس نے لوگوں سے پوچھا تمہاری بستی کا سردار کون ہے؟ انہوں نے حضرت عبدالمطلب کا نام لیا۔ اس نے آپ سے ملاقات کی اور ابرہہ کا پیغام پہنچایا۔ آپ نے فرمایا کہ: ابرہہ سے جنگ کرنے کا نہ ہمارا ارادہ ہے اور نہ ہم میں اس کی ہمت ہے۔ یہ اللہ کا گھر ہے اور اس کے خلیل کا حرم ہے۔ اگر وہ چاہے گا تو خود اس کی حفاظت کرے گا ورنہ جیسے اس کی مرضی۔ حناطہ نے آپ کو ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ آپ اس کے ہمراہ ابرہہ کے پاس تشریف لائے۔ آپ کی بارعب شخصیت اور نورانی چہرہ دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوا۔ تخت سے نیچے اتر آیا اور آپ کے ساتھ فرش پر بیٹھ گیا۔ ترجمان کے ذریعے اس نے پوچھا کوئی ارشاد؟ آپ نے کہا میری درخواست تو یہ ہے کہ تمہارے لشکری میرے دو صد اونٹ ہانک کر لے آئے ہیں، وہ مجھے واپس کردیے جائیں۔ ابرہہ اس غیرمتوقع جواب سے بہت حیران ہوا۔ کہنے لگا جب میں نے آپ کو پہلی مرتبہ دیکھا میری دل میں آپ کا از حد احترام پیدا ہوگیا، لیکن آپ کی یہ حقیر درخواست سن کر احترام کا جذبہ ناپید ہوگیا۔ آپ کو اپنے اونٹوں کا تو اتنا خیال ہے اور کعبہ کا ذرا خیال نہیں جس کی وجہ سے تمہاری عزت کی جاتی ہے۔ آپ نے بڑی سادگی سے جواب دیا: انی انا رب الابل و ان للبیت ربا سیمنعه. یعنی ’میں اونٹوں کا ملک ہوں ان کی حفاظت میری ذمہ داری ہے اور اُس گھر کا بھی ایک مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔‘ ابرہہ نے بڑے غرور سے کہا اب اس گھر کو میری تاخت و تاراج سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔ حضرت عبد المطلب واپس آئے اور قریش کو حکم دیا سب مکہ سے کوچ کر جائیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر چرھ جائیں تاکہ یمنی لشکر ان کو تہس نہس کر کے نہ رکھ دے۔ آخر میں آپ اپنی قوم کے رئیسوں کے ساتھ لے کر کعبہ کے پاس آئے تاکہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا کریں کہ وہ انہیں اور کعبہ کو ابرہہ کی دست برد سے بچائے۔ کعبہ کے دروازہ کے کنڈا کو پکڑ کر عبدالمطلب نے بڑے عجز و نیاز سے فریاد کی۔ عرض کیا:
اللهم ان المرء یمنح رحله فامنع رحالک
لایغلبن صلیبھم ومحالھم ابدا محالک
ان کنت تارکھم وقب لتنا فامر مابدالک
اے اللہ! ہر شخص اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما۔ کل ان کی صلیب اور ان کی قوت تیری قوت پر غالب نہ آجائے۔ اگر تو انہیں اور ہمارے قبلہ کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہتا ہے تو جو تیری مرضی ہو ایسا کر۔
ابن جریر نے عبدالمطلب کے یہ اشعار بھی نقل کیے ہیں جو ا سموقع پر دعا مانگتے ہوئے انہوں نے ارتجالا کہے:
یارب لا اجو لھم سواک یا رب فامنع منھم حماک
ان عدو البیت من عاداک امنعھم ان یخربوا قراک
اے میرے پروردگار تیرے بغیر میں ان کے مقابلہ کی کسی سے توقع نہیں رکھتا۔ اے میرے پروردگار ان کی دستبرد سے اپنے حرم کی حفاظت فرما۔ اس گھر کا دشمن تیرا دشمن ہے ان کو روک دے کہ وہ تیرے بستی کو ویران نہ کریں۔
دعا سے فارغ ہوئے تو سب کو ساتھ لے کر پہاڑوں میں فروکش ہوگئے۔ ابرہہ نے صبح سویرے مکہ پر چڑھائی کا ارادہ کیا۔ اس کے لشکر میں نو یا بارہ جنگی ہاتھیوں کا دستہ تھا۔ سب سے بڑے ہاتھی کا نام محمود تھا۔ جب اس ہاتھی کو مکہ کی طرف پیشقدمی کے لیے ہانکا گیا تو وہ زمین پر بیٹھ گیا۔ فیل بان نے آنکس سے بڑے کچوکے دیے اور تبر سے اسے مارا لیکن وہ اٹھنے کا نام نہ لیتا تھا۔ اگر کسی اور سمت اسے چلنے کا اشارہ کیا جاتا تو بغیر کسی توقف کے وہ چلنے لگتا۔ نفیل بن حبیب سردارِ بنی خثعم جو اب تک اب ابرہہ کے ہمراہ تھا بھاگ کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا۔ انہی حالات میں فضاء میں چھوٹے چھوٹے پرندوں کے غول در غول نمودار ہوئے۔ ہر ایک نے ایک سنگریزہ اپنی چونچ میں اور ایک ایک اپنے دونوں پنجوں میں پکڑا ہوا تھا۔ ان سنگریزوں کی مقدار چنے یا مسور کے دانہ برابر تھی۔ ہر سوار پر ایک ایک پرندہ ایک کنکر مارتا تھا جو اس کے فولادی خود آہنی زرہ اور اس کے جسم کو چیرتا ہوا زمین میں دھنس جاتا تھا۔ لشکر کا اکثر حصہ تو وہیں تباہ و برباد ہوگیا۔ ایک مختصر تعداد جن میں ابرہہ بھی تھا وہاں سے بھاگ جانے میں کامیاب ہوگئی۔ لیکن ان کے جسموں میں اتنی زبردست خارش پید اہوگئی کہ ہر وقت کھجلاتے رہتے تھے۔ کھجلانے سے زخم نمودار ہوگئے۔ زخموں سے پیپ اور لہو بہنے لگا۔ گوشت گل سڑ کر نیچے گرنے لگا۔ کئی راستہ میں ہی ہلاک ہوگئے۔ ابرہہ صنعاء پہنچ گیا۔ لیکن اس کی حالت یہ تھی کہ سارا جسم ناسور بنا ہوا تھا اور وہ گرانڈیل جوان چوزے کی مانند دبلا پتلا ہوگیا تھا۔ یہ تکلف بڑھتی گئی یہاں تک کہ اس کا سینہ شق ہوگیا اور اس نے دم توڑ دیا۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی وہ دشمن جسے اپنی قوت اور لشکر کی کثرت پر بڑا گھمنڈ تھا۔ اس کو چھوٹے پرندوں کی سنگباری سے فنا و برباد کردیا۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو بنی کنانہ کے سردار ذونفر کے ہاتھوں اسے موت کے گھاٹ اتار دیتا، اگر چاہتا تو بنی خثعم کے سردار نفیل کو اس کی بربادی کا باعث دیتا لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ دشمن کو حرم خلیل تک پیشقدمی کرنے کی مہلت دے اور تمام لوگوں کے سامنے اپنی قوت قاہرہ کا مظاہرہ کرے تاکہ قیامت تک کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ اس سال کو اہل عرب عام الفیل کہتے ہیں۔
یہ واقعہ 570ء عیسوی میں روپذیر ہوا، محرم کا مہینہ تھا۔ اسی سال ربیع الاول کے مبارک مہینہ میں کعبہ مقدسہ کو بتوں کی نجاستوں سے پاک کرنے والے، اس کے در و دیوار کو نورِ توحید سے منور کرنے والے اور اس کو ذکر الٰہی کے نغموں سے آباد کرنیوالے اللہ تعالیٰ کے حبیب اور محبوب اور اس کی مخلوق کے ہادی ومرشد محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔
Read Surah al-Fil with English & Urdu translations of the Holy Quran online by Shaykh ul Islam Dr. Muhammad Tahir ul Qadri. It is the 105th Surah in the Quran Pak with 5 verses. The surah's position in the Quran Majeed in Juz 30 and it is called Makki Surah of Quran Karim. You can listen to audio with Urdu translation of Irfan ul Quran in the voice of Tasleem Ahmed Sabri.
1
|
2
|
3
|
4
|
5
|
6
|
7
|
8
|
9
|
10
|
11
|
12
|
13
|
14
|
15
|
16
|
17
|
18
|
19
|
20
|
21
|
22
|
23
|
24
|
25
|
26
|
27
|
28
|
29
|
30
|
31
|
32
|
33
|
34
|
35
|
36
|
37
|
38
|
39
|
40
|
41
|
42
|
43
|
44
|
45
|
46
|
47
|
48
|
49
|
50
|
51
|
52
|
53
|
54
|
55
|
56
|
57
|
58
|
59
|
60
|
61
|
62
|
63
|
64
|
65
|
66
|
67
|
68
|
69
|
70
|
71
|
72
|
73
|
74
|
75
|
76
|
77
|
78
|
79
|
80
|
81
|
82
|
83
|
84
|
85
|
86
|
87
|
88
|
89
|
90
|
91
|
92
|
93
|
94
|
95
|
96
|
97
|
98
|
99
|
100
|
101
|
102
|
103
|
104
|
105
|
106
|
107
|
108
|
109
|
110
|
111
|
112
|
113
|
114
|