اس سورۂ مبارکہ کے بہت سے نام ہیں جو اس کی عظمت شان اور مقام رفیع پر دلالت کرتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: سورہ الاخلاص، سورۂ توحید، سورہ نجات، سورہ الاساس، سورہ المانعہ، سورہ النور، سورہ الامان۔ اس کی آیات کی تعداد چار ہے۔ اس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ بعض علماء کے نزدیک یہ سورہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اور بعض کے نزدیک مدینہ طیبہ میں۔ کتب حدیث میں دونوں قسم کی روایات موجود ہیں۔ بعض سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا، اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں یہ سورہ نازل ہوئی۔ اس سورہ کی چند مختصر آیات میں قدیم وجدید ہر قسم کی فکری گمراہیوں کا استیصال کردیا۔
اس سورۂ مبارکہ کے بہت سے نام ہیں جو اس کی عظمت شان اور مقام رفیع پر دلالت کرتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
سورہ الاخلاص: اس سورہ کے متعدد ناموں میں سے یہ اس کا مشہور ترین نام ہے کیونکہ توحید خالص کا مضمون پوری فصاحت سے اس میں مذکور ہے گویا یہ نام اس سورہ کے لیے بطور علامت مستعمل نہیں ہوا بلکہ اس کے مضامین وہ مطالب کا ایک جامع عنوان ہے۔
سورۂ توحید‘ کیونکہ اس میں عقیدہ توحید کو بڑی جامعیت اور دلکش انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
سورہ نجات‘ اس کے ذریعہ انسان کو کفر و شرک کی آلودگیوں سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ نیز عذاب جہنم سے سے بھی رستگاری کا ذریعہ ہے۔
سورہ مقشقشہ‘ قشقشہ کہتے ہیں بیماری سے شفا یاب ہوجانا۔ اس سورہ کے ذریعے کیونکہ کفر و شرک کے مرض سے شفاء نصیب ہوتی ہے، اسی لیے اسے مقشقشہ کہا گیا۔
سورہ الاساس‘ کیونکہ ایمان وعمل کا قصر رفیع توحید کی بنیادوں پر تعمیر ہوتا ہے۔ اس کے بغیر اعلیٰ سے اعلیٰ عمل بھی بےمعنی اور بےسود ہے۔
سورہ المانعہ‘ یہ اپنے قاری کو عذاب دوزخ سے بچا لیتی ہے۔
سورہ النور‘ اس کی ضیاء پاشیوں سے مومن کے دونوں جہاں روشن ہوجاتے ہیں۔ اس کے ذہن اور اس کے دل دونوں میں اجا لا ہوجاتا ہے۔
سورہ الامان‘ اس سورہ پر ایمن رکھنے والے کو خداوند ذوالجلال کے قہر و غضب سے امان مل جاتی ہے۔
اس کی آیات کی تعداد چار اور بروایت پانچ۔ یہ پندرہ کلمات اور 47 حروف پر مشتمل ہے۔
اس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ بعض علماء کے نزدیک یہ سورہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اور بعض کے نزدیک مدینہ طیبہ میں۔ کتب حدیث میں دونوں قسم کی روایات موجود ہیں۔ بعض سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا، اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں یہ سورہ نازل ہوئی۔ پہلے وہ احادیث پیش کی جا رہی ہیں جن سے اس کے مکی ہونے کی تائید ہوتی ہے:
1. عن ابی العالیه عن ابی بن کعب ان المشرکین قالوا للنبی صلی الله علیه وآله وسلم یامحمد انسب لنا ربک. فانزل الله تعالیٰ قل هو الله احد... الایة (رواه احمد)
ابو العالیہ، ابئ بن کعب سے روایت کرتے ہیں کہ مشرکین کا ایک گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس رب پر ایمان لانے کی آپ ہمی دعوت دیتے ہیں‘ اس کا نسب نامہ تو ہمیں بتائیے تاکہ ہمیں اس کی پہچان ہوجائے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں یہ سورہ نازل فرمائی۔
2. عن الشعبی عن جابر ان اعرابیا جاء الی النبی صلی الله علیه وآله وسلم قال انسب لنا ربک. فانزل الله قل هو الله احد۔... الایة
شعبی، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اپے رب کا نسب نامہ ہمیں سنائیے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ سورہ نازل فرمائی۔
3. عن ابی وائل عن ابن مسعود قالت قریش لرسول الله صلی الله علیه وآله وسلم انسب لنا ربک فنزلت هذه السورة۔.
ابی وائل حضرت ابن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ قریش نے ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمائش کی کہ اپنے رب کا نسب نامہ تو ہمیں بتائیے۔ اس وقت یہ سورہ نازل ہوئی۔
ان تینوں رویات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سورہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ وہیں کے مشرکوں اور قریش نے یہ سوال پوچھا اور انہیں کو یہ جواب دیا گیا۔
لیکن درج ذیل روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کا نزول مدینہ طیبہ میں ہوا:
1. عن ابن عباس ان الیهود جاءوا الیٰ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ومعهم کعب بن اشرف فقالو یا محمد هذ الله خلق الخلق فمن خلق الله فغضب نبی الله علیه الصلوة والسلام فنزل جبرئیل فسکنه وقال اخفض جناحک یامحمد فنزل قل هو الله احد...الایة۔
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ یہودیوں کا ایک گروہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔ ان کے ساتھ کعب بن اشرف یہودی بھی تھا۔ انہوں نے کہا یہ اللہ ہے جس نے مخلوق کو پیدا کیا تو اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ حضور علیہ الصلوہ والسلام ازحد غضبناک ہوگئے۔ جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے تو حضور کو تسلی دی اور عرض کیا اپنے پروں کو نیچا کیجیے۔ اس وقت یہ سورہ نازل ہوئی۔
2. روی عطاء عن ابن عباس قال قدم وفد نجران فقالو صف لنا ربک امن زبرجد او یاقوت اوذهب اوفضه۔ وقال ان ربی لیس من شیئ لانه خالق الشیاء فنزلت قل هو الله احد۔.
عطاء حضرت ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ جب نجران کے نصاریٰ کا وفد آیا تو انہوں نے حضور سے کہا کہ اپنے رب کی حقیقت ہمیں بتائیے وہ زبرجد کا بنا ہوا ہے، یاقوت کا بنا ہوا ہے یا سونے چاندی کا بنا ہوا ہے؟ حضور نے فرمایا کہ میر ارب ان چیزوں میں سے نہیں، میرا رب ان تمام اشیاء کا خالق ہے۔ اس قت یہ سورہ نازل ہوئی۔
یہودیوں کا وفد بھی مدینہ طیبہ میں حاضر خدمت ہوا تھا اور نجران کے عیسائی بھی اسی مقام پر حاضری سے شرف یاب ہوئے تھے۔ ان دوحدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سورہ مدنی ہے۔
اہل تحقیق نے روایات کے اس تعارض کو یہ کہہ کر ختم کیا کہ اس سورہ کا نزول دوبار ہوا۔ ایک بار مکہ میں اور دوسری بار مدینہ میں۔ اس کی توجیہ یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ یہ سورہ نازل تو مکہ مکرمہ میں ہوئی لیکن جب اسی قسم کے سوالات یثرب کے یہودیوں اور نجران کے عیسائیوں نے پوچھے تو ان کے جواب کے لیے اس سورہ کی طرف توجہ مبذول کرادی۔ اسی کو نزول سورہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کاملہ کے بارے میں جس قسم کی غلط فہمیاں نوع انسانی کے کسی حلقہ میں پائی جاتی تھیں، ان تمام کا ازالہ یہ سورہ نازل کر کے کردیا۔ بعض کہتے تھے کہ یہ عالم قدیم ہے، اس کا کوئی خالق اور مبدأ نہیں، اپنی محیرالعقول بوقلمونیوں اور بےعدیل باہمی نظم و ضبط کے ساتھ یہ خود بخود معرض وجود میں آگیا ہے۔ یہ کہنے والے یونان کے قدیم فلسفی ہوں یا عصرحاضر کے ملحد دانشور ہوں، مصر اور بابل کے ترقی یافتہ تمدنوں کے بانی ہوں یا وحشی قبائل سب غلط کہتے ہیں۔ بتادیا اس کائنات کا خالق ہے اور ہے بھی وہ وحدہ لا شریک۔
بعض قومیں ذات خدوندی کو تسلیم کرتی تھیں لیکن اس کی صفات کاملہ کا عرفان انہیں نصیب نہیں ہوا تھا، اس لیے اوہام و ظنون کی وادیوں میں صدیوں سے بھٹک رہی تھیں۔ باقی آیات سے ان کے شکوک و شبہات کا ازالہ کردیا اور انہیں کفر و شرک کے اندھیروں سے نکال کر معرفتِ الٰہی کی روشنی میں پہنچا دیا۔ یہی مسئلہ توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ تمام انبیاء و رسل یہی سبق لوگوں کا ذہن لوگوں کو ذہن نشین کرانے کے لیے تشریف فرماہوئے خاتم النبیین رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا مقصد وحید بھی یہی تھا۔
اس سورہ کی چند مختصر آیات میں قدیم وجدید ہر قسم کی فکری گمراہیوں کا استیصال کردیا۔
اس سورۂ پاک کی فضیلت واہمیت اس کے مضمون سے عیاں ہے۔ لیکن بطور تبرک زبانِ رسالتماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی اس کی عظمت شان کا تذکرہ سنیے۔
1. عن عائشة رضی الله تعالیٰ عنها ان النبی صلی الله علیه وآله وسلم بعث رجلا علی سریة فکان یقرأ لاصحابه فی صلوته ویختم بقل هو الله احد۔ لما رجعوا ذکروا ذلک لنبی صلی الله علیه وآله وسلم فقال سلوه لای شیئ یصنع ذلک فسألوه فقال النها صفة الرحمن وانا احب ان اقرأ بها وقال النبی صلی الله علیه وآله وسلم اخبروه ان الله تعالیٰ یحبه.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی کو ایک لشکر کا امیر بنا کر کسی مہم پر روانہ کیا۔ ان کا یہ معمول تھا کہ جب وہ جماعت کراتے ہر رکعت کی قرأت کے اختتام پر سورۂ اخلاص تلاوت کر تے۔ واپسی پر لشکریوں نے اس بات کا تذکرہ بارگاہ رسالت میں کیا۔ حضور نے فرمایا: تم اس سے پوچھو وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ اس سے دریافت کیا گیا تو اس نے جواب دیا۔ اس سورہ میں خداوند رحمٰن کی صفت ہے اس لیے میں اس کی تلاوت کو محبوب رکھتا ہوں۔ نبی کریم نے فرمایا اسے بتا دو کہ اللہ تعالیٰ بھی اس کو محبوب رکھتا ہے۔
2. عن انس قال کان رجل من الانصار یؤمهم فی مسجد قباء فکان کلما افتتح سورة یقرأ بها لهم فی الصلوة ممن یقرأ به افتتح بقل هو الله احد حتی یفرغ منها ثم کان یقرأ سورة اخری معها۔ وقال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یا فلاں ما یمنعک ان تفعل ما یامرک به اصحابک وما حملک علی لزوم هذه السورة فی کل رکعة قال انی احبها قال حبک ایاها ادخلک الجنة.
’’حضرت انس سے مروی ہے کہ ایک انصاری مسجد قبا میں انصار کی امامت کیا کرتے تھے۔ ان کا یہ دستور تھا کہ وہ سورہ پڑھنے سے پہلے سورۂ اخلاص کی تلاوت کرتے۔ ان کے مقتدیوں نے انہیں کہا کہ یہ آپ کیا کرتے ہیں یا سورۃ اخلاص پڑھا کیجیے یا کوئی دوسری سورہ۔ انہوں نے کہا میں تو ایسا ہی کروں گا۔ اب آپ کی مرضی ہو تو جماعت کراتا ہوں اور اگر آپ کی مرضی نہ ہو تو کسی دوسرے کو اپنا امام مقرر کرلیجیے۔ ان کی نیکی اور پارسائی کی وجہ سے لوگ کسی دوسرے کو امام مقرر کر ناپسند نہ کرتے تھے چنانچہ اس کا تذکرہ حضور کی خدمت اقدس میں کیا گیا۔ حضور نے فرمایا تمہارے مقتدی جس طرح کہتے ہیں تم ایسا کیوں نہیں کرتے۔ اس نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے اس سورہ سے بڑا پیار ہے۔ حضور نے ارشاد فرمایا اس کی محبت نے تجھے جنت میں داخل کردیا۔‘‘
اگرچہ یہ سورہ صرف چار آیات پر مشتمل ہے۔ لیکن اپنی عظمت شان کے باعث اس کو ایک بار پڑھنے سے دس پاروں کی تلاوت کا ثواب ملتا ہے۔
1. عن ابی هریرة قال قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم احشدوا فانی ساقرأ علیکم ثلث القرآن فحشد من حشد ثم خرج فقرأ قل هو الله احد الخ ثم دخل فقال انی قلت ساقرأ علیکم ثلث القرآن الا وانها تعدل ثلث القرآن.
’حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک رو ز صحابہ کو حکم دیا کہ اکٹھے ہوجاؤ میں تمہیں ایک تہائی قرآن سناؤں گا، چنانچہ لوگ جمع ہوگئے۔ حضور تشریف لائے اور سورۂ اخلاص کی تلات فرمائی پھر حجرۂ مبارکہ میں تشریف لے گئے۔ لوگ کہنے لگے حضور نے تو فرمایا تھا کہ میں تمہیں ایک تہائی قرآن سناؤں گا اور آپ صرف ایک سورہ سنا کر تشریف لے گئے ہیں۔ حضور نے واپس آکر فرمایا کہ میں نے تمہیں یہی کہا تھا کہ میں تمہیں ایک تہائی قرآن سناؤں گا۔ کان کھول کر سن لو۔ یہ سورہ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔‘
2. عن ابی سعید قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم لاصحابه ایعججز احدکم ان یقرأ ثلث القرآن فی لیلة فشق ذلک علیهم قالو اینا یطیق زلک یارسول الله فقال الله الواحد الصمد ثلث القرآن.
ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو فرمایا کیا تم ایک تہائی قرآن ہر رات تلاوت نہیں کرسکتے۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ہم میں نے سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے۔ فرمایا قل ھو اللہ احد... الخ قرآن کی ایک تہائی ہے۔
اس سورہ کو قرآن کریم کی ایک تہائی کہنے کی کئی وجوہات علماء نے ذکر کی ہیں۔ سب سے بہتر یہ ہے کہ قرآن میں تین چیزوں پر پوری توجہ صرف کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان، رسالت پر ایمان اور روز قیامت پر ایمان۔ اس سورہ میں توحید کا ذکر کیا گیا ہے جو ان تین چیزوں میں سے ایک ہے اس لیے اسے قرآن کی ایک تہائی فرمایا گیا۔
اس بابرکت سورہ کے واسطہ کے واسطہ سے اللہ تعالیٰ کی جناب میں جب دامن طلب پھیلایا جاتا ہے، وہ کریم اسے خالی واپس نہیں کرتا۔
عن ابی هریرة انه دخل مع رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم المسجد فاذا رجل یصلی یدعو یقول الله انی اسألک بانی اشهد ان لا اله الانت الاحد الصمد الذی لم یلد ولم یولد ولم یکن له کفوا احد، قال والذی نفسی بیده لقد سأله باسمه الاعظم الذی اذا سئل به اعطی واذا دعی به اجاب.
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں حضور کریم کی معیت میں مسجد میں داخل ہوا، وہاں ایک شخص نماز پڑھ کر دعا مانگ رہا تھا اور عرض کر رہا تھا: ’اللهم انی اسالک بانی اشهد ان الا اله الا انت الاحد الصمد الذی لم یلد ولم یولد ولم یکن له کفوا احد‘ یہ سن کر حضور نے فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اس شخص نے اپنے رب سے اس کے اسم اعظم کے وسیلہ سے دعا مانگی ہے جب بھی اس کے وسیلہ سے سوال کیا جاتا ہے وہ عطا فرماتا ہے اور جب بھی دعا کی جاتی ہے، وہ قبول کرتا ہے۔
روی انه کان جبرئیل علیه السلام مع الرسول علیه الصلوه والسلام اذا اقبل ابو ذر الغفاری۔ قال جبرئیل هذا ابو ذر قد اقبل وقال علیه الصلوه والسلام او تعرفونه قال هو اشهر عندنا منه عندکم۔ قال علیه الصلوة والسلام بماذا نال هذه الفضیلة قال لصغره فی نفسه وکثرة قراءته قل هو الله احد۔ (تفسیر کبیر)
ایک دفعہ حضرت جبرئیل بارگاہ رسالت میں حاضر تھے کہ ابو ذر غفاری آگئے۔ جبرئیل نے عرض کی یہ ابوذر ہیں جو آرہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کیا تم ملائکہ ابوذر کو پہچانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ وہ یہاں سے زیادہ ہمارے ہاں مشہور ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا، کس وجہ سے انہیں یہ فضیلت ملی ہے۔ انہوں نے عرض کی۔ ایک تو یہ اپنے آپ کو اپنے دل میں چھوٹا سمجھتے ہیں، دوسرا ’قل ھواللہ احد‘ کی کثرت سے قرأت کرتے ہیں۔
علامہ ابو عبداللہ الانصاری القرطبی اپنی تفسیر میں اس مقام پر ایک روایت نقل کرتے ہیں۔ آپ بھی سنیے اور اس پر عمل کیجیے:
عن سهل بن سعد الساعدی قال شکارجل الی رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم الفقر وضیق المعیشة فقال له رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم اذا دخلت البیت فسلم ان کان فیه احد وان لم یکن فیه احد فسلم علی واقرأقل هو الله احد مرة واحدة ففعل الرجل فادر الله علیه الرزق حتی افاض علی جیرانه۔ (القرطبی)
سہل بن سعد الساعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں اپنے فقر اور تنگدستی کی شکایت کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا کہ جب تم اپنے گھر میں داخل ہو اگر وہاں کوئی موجود ہو تو اس کو سلام کہو اور اگر کوئی موجو دنہ ہو تو مجھ پر سلام بھیجو اور پھر ایک مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھو۔ اس آدمی نے حسب ہدایت عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اتنا وافر رزق عطا فرمایا کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو بھی مستفید کرنے لگا۔
قاضی عیاض شفا شریف میں ان مقامات کا ذکر کرتے ہوئے جہاں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوۃ والسلام بھیجنا مستحب ہے رقمطراز ہیں:
وقال عمرو بن دینار فی قوله فاذا دخلتم بیوتا فسلموا علی انفسکم قال ان لم یکن فی البیت احد فقل السلام علی النبی ورحمة الله وبرکاته.
عمرو بن دینار (جو امام حدیث ہیں اور صحاح ستہ کے مصنفین نے ان سے احادیث روایت کی ہیں) اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے ضمن میں فاذا دخلتم (الایۃ) لکھتے ہیں جب تم اپنے گھروں میں داخل ہو تو اپنے آپ پر سلام بھیجو۔ ابن دینار کہتے اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو کہو السلام علی النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
علامہ علی قاری شرح شفا میں اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
ای لان روحه علیه السلام حاضر فی بیوت اهل الاسلام.
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مبارک اہل اسلام کے گھروں میں حاضر ہوتی ہے۔ اس لیے حضور ﷺ پر سلام عرض کرنا چاہیے۔
(شرح شفا، قاضی عیاض، جلد 2، ص: 117)
1
|
2
|
3
|
4
|
5
|
6
|
7
|
8
|
9
|
10
|
11
|
12
|
13
|
14
|
15
|
16
|
17
|
18
|
19
|
20
|
21
|
22
|
23
|
24
|
25
|
26
|
27
|
28
|
29
|
30
|
31
|
32
|
33
|
34
|
35
|
36
|
37
|
38
|
39
|
40
|
41
|
42
|
43
|
44
|
45
|
46
|
47
|
48
|
49
|
50
|
51
|
52
|
53
|
54
|
55
|
56
|
57
|
58
|
59
|
60
|
61
|
62
|
63
|
64
|
65
|
66
|
67
|
68
|
69
|
70
|
71
|
72
|
73
|
74
|
75
|
76
|
77
|
78
|
79
|
80
|
81
|
82
|
83
|
84
|
85
|
86
|
87
|
88
|
89
|
90
|
91
|
92
|
93
|
94
|
95
|
96
|
97
|
98
|
99
|
100
|
101
|
102
|
103
|
104
|
105
|
106
|
107
|
108
|
109
|
110
|
111
|
112
|
113
|
114
|