اس سورہ پاک کا نام قریش ہے۔ یہ کلمہ اس کی پہلی آیت میں مذکور ہے۔ اس کا ایک رکوع اور چار آیتیں ہیں۔ اس کے کلمات کی تعداد سترہ اور حروف کی تعداد تہتر ہے۔
اگرچہ ضحاک اور کلبی کی رائے میں یہ سورہ مدنی ہے لیکن جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کا نزول مکہ مکرمہ میں سورۂ الفیل کے بعد جلد ہی ہوا۔ مضمون کی یگانگت اور کلمات کا باہمی تعلق بھی اسی قول کی تائید کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض حضرات نے انہیں دو علیحدہ علیحدہ سورتوں کے بجائے ایک سورہ ہی شمار کیا ہے۔ لیکن حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کے جو نسخے کتابت کرائے تھے ان میں ان دو سورتوں کے درمیان بسم اللہ مرقوم ہے۔ جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ دو الگ الگ سورتیں ہیں۔
اس سورہ میں قریش پر اپنے عظیم احسانات کا تذکرہ فرمایا جارہا ہے اور ان احسانات کو یاد دلانے کے بعد انہیں اپنے رب کریم کی عبادت کی دعوت دی جارہی ہے۔
قریش، عرب کا ایک مشہور اور معزز ترین قبیلہ ہے۔ اس کا اطلاق نضر کی اولاد پر ہوتا ہے جس کا نسب نامیہ ہے: نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر۔ بعض علماء کے نزدیک نضر کے پوتے فہر بن مالک کی اولاد کو قریش کہا جاتا ہے۔ لیکن پہلا قول صحیح ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات سے بھی اسی قول کی تصدیق ہوتی ہے۔ ارشاد ہے:
’انا ولد نضر بن کنانه لانقفوا امنا ولا نتفی من ابینا‘
یعنی ہم نضر بن کنانہ کی اولاد ہیں نہ ہم اپنی ماؤں کو متہم کرتے ہیں اور نہ اپنے باپوں سے اپنے نسب کی نفی کرتے ہیں۔ یعنی ہمیں اپنی ماؤں کی عفت، پاکی، اپنے باپوں کی شرافت و بزرگی دونوں پر ناز ہے۔ دوسرا ارشاد ہے:
قال النبی صلی الله علیه وآله وسلم ان الله اصطفی کنانة من ولد اسمعیل واصطفی من بنی کنانة قریشاواصطفی من قریش بنی هاشم واصطفانی من بنی هاشم.
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد اسماعیل سے کنانہ کو چنا اور بنی کنانہ سے قریش کو اور قریش سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم سے مجھ کو۔ ان احادیث سے بھی معلوم ہو اکہ کنانہ کے بیٹے نضر کی اولاد قریش کہلائی۔ کنانہ کے دوسرے بیٹوں کی اولاد کا شمار قریش میں نہیں ہوتا۔
قبیلہ قریش کی وجہ تسمیہ کیا ہے اس کے بارے میں متعدد اقوال منقول ہیں:
ابو ناقصی کان یدعی مجمعا به یجمع الله القبائل من فهر.
ہمارا باپ قصی ہے جسے مجمع کہا جاتا ہے فہر کی اولاد کے قبائل کو اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ جمع کیا۔
علامہ ابو عبداللہ قرطبی اپنی شہرہ آفاق تسیر الجامع لاحکام القرآن میں لکھتے ہیں: عبد مناف کے چار فرزند تھے۔ ہاشم، عبد شمس مطلب اور نوفل چاروں بڑی خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ہر ایک نے اپنی پڑوسی بادشاہوں میں سے کسی نہ کسی کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کر رکھے تھے اور انہوں نے ان کو یہ مراعات دی تھیں کہ یہ لوگ ان کے ملکوں میں ہر طرح کی تجارت اور کاروبار کرسکتے ہیں اور جس شخص کے پاس ان کا دیا ہوا امان نامہ ہوگا اسے بھی یہ رعایت حاصل تھی ہاشم کے تعلقات شام کے بادشاہ سے تھے۔ عبد شمس نے حبشہ، مطلب نے یمن، نوفل نے فارس کے بادشاہوں سے اپنے لیے اور اپنی قوم کے لیے مراعات حاصل کرلی تھیں۔
قریش نے تجارت کے پیشہ کو کن حالات میں اختیار کیا اس کے بارے میں بھی علامہ قرطبی نے بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ: قصی نے قریش کو حرم کعبہ کے پڑوس میں لاکر آباد تو کر دیا لیکن یہاں کھیتی باڑی کا کوئی امکان نہ تھا۔ نہ پانی دستیاب تھا اور نہ زمین قابل کاشت تھی۔ ان کی معیشت کا سارا انحصار ان نذرانوں اور خدمات پر تھا جو ایام حج میں جزیرہ عرب کے گوشہ گوشہ سے آنے والے حاجی پیش کیا کرتے تھے۔ جب قریش کا کوئی خاندان مفلس اور کنگال ہوجاتا اور فاقہ کشی کی نوبت پہنچتی تو اس کے افراد ایک مقررہ جگہ پر چلے جاتے وہاں ایک خیمہ نصب کرلیتے اور اس کے اندر داخل ہوجاتے یہاں تک کہ موت انہیں اپنے آغوش میں چھپا لیتی۔ عبدمناف کا بلند اقبال فرزند جن کا نام عمرو تھا اور جو ہاشم کے لقب سے مشہور ہوئے۔ ان کا ایک بیٹا تھا جس کا نام اسد تھا۔ بنی مخزوم کے قبیلہ کے ایک لڑکے سے اسد کا دوستانہ تھا۔ اس کے خاندان کو جب بھوک نے اپنے نرغہ میں لے لیا اور انہوں نے حسب دستور فیصلہ کیا کہ کل وہ مقررہ جگہ پر خیمہ نصب کر کے اس میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ موت ان کا قصہ تمام کردے۔ اپنے دوست کی یہ بات سن کر اسد کو بہت صدمہ پہنچا۔ وہ روتا ہوا اپنی ماں کے پاس آیا اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ ماں نے اسد کو اس کے مخزومی دوست کے خاندان کے لیے چربی اور آٹا کی وافر مقدار دی۔ چنانچہ دن روز کے بعد جب وہ راشن ختم ہوگیا اور نوبت فاقہ کشی پر آپہنچی۔ اس نے اپنے دوست اسد کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ اسد روتا ہوا اس دفعہ اپنے باپ عمرو (ہاشم) کے پاس آیا اور ساری داستان بیان کی۔ عمرو کو یہ سن کر از حد قلق ہوا۔ انہوں نے اپنے قبیلہ کا اجلاس عام طلب کیا اور تقریر کرتے ہوئے کہا کہ تم نے ایک ایسا طریقہ اختیار کرلیا ہے جس سے تمہاری تعداد گھٹتی چلی جارہی ہے اور دوسرے عرب قبائل کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم کمزور اور ذلیل ہوجاؤ گے اور دوسرے قبائل تم پر غلبہ پالیں گے حالانکہ تم اللہ کے حرم کے باشندے ہو اور اولاد آدم میں سب سے زیادہ معزز و محترم ہو، باقی تمام لوگ تمہارے پیروکار ہیں۔ یہ موت کے خیمہ میں داخلہ کی رسم تمہیں فنا کر کے رکھ دے گی۔ سامعین نے کہا آپ حکم دیں ہم آپ کا حکم ماننے کے لیے تیار ہیں۔ ہاشم نے کہا پہلے اسد کے دوست کے والدین کو اس کے ہلاکت سے چھڑائیے چنانچہ اسی وقت ان کے لیے خورد و نوش کا اہتمام کر دیا گیا۔ پھر ہاشم نے خود اونٹ بھیڑ بکریاں ذبح کیں۔ ان کے شوربے میں روٹی کو تر کر کے ثرید بنائی اور لوگوں کو خوب کھانا کھلایا اسی وجہ سے عمرو کا لقب ہاشم مشہور ہوا۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے:
عمرو الذی هشم الثرید لقومه ورجال مکة مسنتون عجاف.
عمرو وہ ہے جس نے اپنی قوم کی ضیافت کے لیے شوربہ میں روٹی کو بھگویا۔ حالانکہ مکہ کے دوسرے لوگ بری طرح قحط کا شکار تھے اور مسلسل فاقوں سے لاغر و کمزور ہوگئے تھے۔
اس کے بعد ہاشم نے اپنے قبیلہ کے ہر خاندان کو تجارت کرنے کی ترغیب دی۔ ہر خاندان سال میں دو تجارتی سفر اختیار کیا کرتا۔ سردیوں میں یمن کی طرف اور گرمیوں میں شام کی طرف ان کے قافلے بحر احمر کی مشرقی بندرگاہوں سے مشرقی ممالک کا آیا ہوا مال اٹھاتے اور اسے شام اور مصر تک پہنچاتے۔ پھر اسی طرح شام سے مال اٹھاتے اور یمن کی بندرگاہوں پر پہنچاتے۔
اس کاروبار اور تجارت سے انہیں جتنا نفع حاصل ہوتا وہ امیر غریب آپس میں برابر تقسیم کرلیتے۔ اس طرح تجارت، اس کے نفع کی مساویانہ تقسیم چند سالوں میں سارے قریش کی مالی حالت بہت بہتر ہوگئی۔ یہاں تک کہ دولت و ثروت میں عرب کا کوئی دوسرا قبیلہ ان کا ہمسر نہ تھا۔ اس شعر میں اسی کی طرف اشارہ ہے:
والخالطون فقیرهم بغنیھم حتی یصیر فقیرهم کلکافی.
ہم (قریش) وہ لوگ ہیں کہ غریب کو امیر کے ساتھ حصہ دار بنا دیتے ہیں یہاں تک کہ فقیر بھی کسی کا محتاج نہیں رہتا۔ وہ اسی حالت میں تھے کہ اسلام کا آفتاب عالمتاب طلوع ہوا۔
مکہ کے معزز قبیلہ قریش کو اپنے احسانات کی یاد دلائی جارہی ہے۔ پھر انہیں یہ سمجھایا جارہا ہے کہ اس خانہ کعبہ پر ابرہہ نے حملہ کیا تو اس کی حفاظت تمہارے ان بتوں نے نہیں کی بلکہ رب العالمین نے پرندوں کی ایک ٹکڑی بھیج کر ابرہہ کے لشکر جرار کو فنا کے گھاٹ اتار دیا اور اس گھر کی حفاظت فرمائی۔
تجارت کا راستہ کھول کر تمہارے لیے خوشحالی اور فارغ البالی کا سامان بھی اللہ تعالیٰ نے فراہم کیا۔ لوگوں کے دلوں میں تمہارا اس قدر احترام پیدا کردیا جس کے باعث تم بڑے امن و سکون سے جہاں چاہو جاسکتے ہو۔ تمہارے کاروان تجارت کی طرف کوئی للچائی ہوئی نظر نہیں اٹھا سکتا۔ جس نے تمہیں ان انعامات سے بہرہ ور فرمایا ہے وہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔
Read Surah al-Quraish with English & Urdu translations of the Holy Quran online by Shaykh ul Islam Dr. Muhammad Tahir ul Qadri. It is the 106th Surah in the Quran Pak with 4 verses. The surah's position in the Quran Majeed in Juz 30 and it is called Makki Surah of Quran Karim. You can listen to audio with Urdu translation of Irfan ul Quran in the voice of Tasleem Ahmed Sabri.
1
|
2
|
3
|
4
|
5
|
6
|
7
|
8
|
9
|
10
|
11
|
12
|
13
|
14
|
15
|
16
|
17
|
18
|
19
|
20
|
21
|
22
|
23
|
24
|
25
|
26
|
27
|
28
|
29
|
30
|
31
|
32
|
33
|
34
|
35
|
36
|
37
|
38
|
39
|
40
|
41
|
42
|
43
|
44
|
45
|
46
|
47
|
48
|
49
|
50
|
51
|
52
|
53
|
54
|
55
|
56
|
57
|
58
|
59
|
60
|
61
|
62
|
63
|
64
|
65
|
66
|
67
|
68
|
69
|
70
|
71
|
72
|
73
|
74
|
75
|
76
|
77
|
78
|
79
|
80
|
81
|
82
|
83
|
84
|
85
|
86
|
87
|
88
|
89
|
90
|
91
|
92
|
93
|
94
|
95
|
96
|
97
|
98
|
99
|
100
|
101
|
102
|
103
|
104
|
105
|
106
|
107
|
108
|
109
|
110
|
111
|
112
|
113
|
114
|