جناب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک قادر الکلام خطیب بے بدل تو ہیں ہی اور اس میدان میں وہ اپنی مثل آپ ہی ہیں، عام فہم، واضح اور اثر انگیز انداز میں دل کی بات دلوں میں اتارنے میں جوکمال قدرت نے انہیں دیا ہے وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا ہے۔ آڈیو، ویڈیو کیسٹ یا سی ڈی نے جواہر خطابت و تقریر کو بھی سامعین تک پہنچانا اور محظوظ و مستفید ہونا بہت آسان بنادیا ہے۔ اس لئے ڈاکٹر صاحب کی تقاریر و خطابات اور کلمات حکمت آمیز اور اثر انگیز بھی ان کے دور و دراز کے سامعین تک پہنچ رہے ہیں اور تاقیامت پہنچتے رہیں گے۔
لیکن لسانی زور بیان کی طرح پرورش لوح و قلم کا سلسلہ بھی پوری تیز رفتاری اور فراوانی کے ساتھ جاری نگارشات کی تعداد بھی ہزار کو جلد ہی چھونا چاہتی ہے۔ ’’اللہ کرے زور قلم اور زیادہ‘‘ اس طرح وہ بہت جلد اسلامی دنیا کے کثیر التصانیف علماء میں شامل ہورہے ہیں، پاکستان کے لئے یہ بات یقینا قابل فخر ہوگی۔
’’عرفان القرآن‘‘ جناب شیخ الاسلام کا تازہ ترین علمی کارنامہ ہے، یہ قرآن کریم کا مکمل ترجمہ ہے، جو اپنی سہولت، سلاست اور روانی کے طفیل کلام اللہ کے تراجم میں بہت جلد اپنے لئے خاص مقام حاصل کرلے گا، یہ ترجمہ ایک طویل، صبر آزما اور مشقت طلب جہد مسلسل کا نتیجہ ہے، اس کی تکمیل کے لئے قادری صاحب نے راتوں کی نیند اور دن کا آرام قربان کیا ہوگا تب یہ شاندار اور بے مثال علمی کارنامہ تکمیل کو پہنچا ہوگا! ان کی ہمت و استقلال اور جہد مسلسل جس قدر رواں دواں ہے اسی قدر ان کا اشہب قلم بھی اپنی پوری رفتار سے گامزن ہے اس قرآن السعدین کے نتائج و ثمرات بھی یقینا حوصلہ افزا اور روح پرور ہونگے۔
کتاب زندہ قرآن حکیم کے اس اردو ترجمہ کی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک خوبصورت، عام فہم اور آسان ترجمہ ہے جو ہر قسم کے الجھائو اور لسانی ابہام سے پاک ہے، اس حیثیت سے یہ ترجمہ ایک معمولی پڑھے لکھے انسان کی ذہنی سطح کے قریب ہونے کے باعث آسان بھی اور پرکشش بھی، مگر اس کے ساتھ ہی اپنی سہولت و سلاست کے باعث اصحاب ذوق کی تسکین کا سامان بھی ہے، ایسی سلیس اور رواں اردو میں کتاب اللہ کے ایسے تراجم بہت کم ہیں، مترجم نے اپنی علمیت کا سکہ بٹھانے کی نسبت اپنے قاری کے استفادہ اور منفعت کو مقدم رکھا ہے۔ زیادہ تفاصیل کی تو گنجائش نہیں ہے صرف چند اقتباسات بطور نمونہ کافی ہوں گے۔
سور ت الفاتحہ ام القرآن یا کتاب عزیز کی اصل اور بنیاد ٹھہری ہے، یہ نمازی کی ایسی دعا ہے جس کے بغیر کوئی نماز ہو ہی نہیں سکتی، اسے سمجھنا، اس کی تلاوت کرنا اور اس کے معارف پر غور کرنا ہر مسلمان کے لئے دنیاکی فلاح اور آخرت کی نجات ہے، اس کا ترجمہ عرفان القرآن کا مصنف ہمارے لئے یوں پیش کرتا ہے۔
’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے۔ نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے، روز جزا کا مالک ہے، (اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں، ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا‘‘۔
یہ سادہ سلیس اور عام فہم اسلوب بیان فاتحۃ الکتاب ام القرآن کو جس خوبصورت اور پرکشش انداز میں پیش کرتا ہے وہ جناب شیخ الاسلام ہی کا حصہ ہے۔
قرآن کریم کی مختصر ترین سورت الکوثر عربی حسن بیان اور فصاحت کا اعلیٰ نمونہ اور اس کتاب زندہ کے اعجاز کی زندہ و پائندہ مثال ہے۔ یہ وہ سورت ہے جس نے ولید جیسے خطیب و نقاد قریش کو بھی حیرت میں ڈال دیا تھا اور وہ بھی یہ ماننے پر مجبور ہوگیا تھا کہ یہ کسی بشر کا کلام نہیں ہے!! عرفان القرآن نے اس سورت کو اردو میں یوں پیش کیا ہے۔
اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَبْتَرُ۔
’’بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے، پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکر ہے)، بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشان ہوگا‘‘۔
عرفان القرآن کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کو تفسیری حواشی سے بھی نہیں لادا گیا اس کے بجائے ترجمہ ہی سے بات واضح کرنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے، مگر اشد ضرورت کے پیش نظر بہت کم نوٹ دیئے گئے ہیں، اس سورت الکوثر کی تفہیم کے لئے یہ مختصر نوٹ دیا گیا ہے۔
’’کوثر سے مراد حوض کوثر یا نہر جنت بھی ہے اور قرآن اور نبوت و حکمت بھی، فضائل ومعجزات کی کثرت یا اصحاب و اتباع اور امت کی کثرت بھی مراد لی گئی ہے، رفعت ذکر اور خلق عظیم بھی مراد ہے اور دنیا و آخرت کی نعمتیں بھی، نصرت الہٰیہ اور کثرت فتوحات بھی مراد ہیں اور روز قیامت مقام محمود اور شفاعت عظمیٰ بھی مراد لی گئی ہے‘‘۔
استاذ گرامی علامہ عبدالعزیز میمن رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جب کوئی اچھی نئی کتاب ہاتھ آئے تو اس کی زکوٰۃ یاصدقہ ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، ایک تو یہ کہ اسے محبت و احترام سے ہاتھ میں لینا اور سنبھالنا چاہئے لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ یہ کہ اسے پڑھنے کا حق ادا کرنا چاہئے، بھلا کتاب اللہ عزوجل سے زیادہ محبوب مکرم کون سی کتاب ہوسکتی ہے اور پھر اگر اس کتاب زندہ کا ترجمہ جناب شیخ الاسلام جیسے ہمدم دیرینہ کے قلم کا شاہکار ہو اور خوبصورت دیدہ زیب طباعت کے ساتھ نگاہ کو ٹھنڈک اور دل کو سرور بخشے تو پھر تو یہ واجب اور بھی زیادہ اہم اور بھاری ذمہ داری کی شکل اختیار کرلیتا ہے پھر یہ ترجمہ عرفان القرآن (قرآن کریم کو خوب جاننا اور سمجھنا) جیسا جاذب پرمغز اور حسن صوت و حسن معنی سے لبریز نام بھی رکھتا ہو تو اس کی دلکشی اور روح پروری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
چنانچہ سب سے پہلے تو عرفان القرآن کی ترکیب دلکش نے چونکا دیا اور نام کے حسن انتخاب کی داد دینا پڑی، لیکن جب آیات بینات کا خوبصورت ترجمہ دیکھا تو اس جاذبیت، دلکشی اور داد و تحسین میں مزید اضافہ ہوگیا۔شروع سے لیکر آخر تک نگاہ تشنہ اپنی تسکین کا سامان کرتی چلی گئی اور اختتام تک جاپہنچی!! پھر ایسے بھی ہوا کہ نظر کہیں کہیں ٹھہرتی گئی اور ہر جگہ رک کر غور بھی کرنا پڑا، ایسے مقامات وقوف و تفکر کتنے تھے؟ بے حساب!! مگر یہ وقوف و تفکر ایسا نہ تھا جو اموی دور کے عرب شاعر فرزدق کو حضرت لبید بن ربیعہ العامری رضی اللہ عنہ کے معلقہ میمیہ کا ایک شعر پڑھ کر پیش آیا تھا اور وہ شعر پڑھتے ہی سجدہ ریز ہوگیا تھا اور لوگوں کے پوچھنے پر بتایا تھا کہ آپ قرآن کریم کے سجدہ ہائے تلاوت سے تو آگاہ ہیں مگر شاید یہ نہیں مانتے کہ شعر پڑھنے کا بھی سجدہ ہوتا ہے جب کوئی شاعر نادر البیان خوبصورت تشبیہ لائے تو اس وقت بھی خدا کے لئے سجدہ شکر واجب ہے کہ وہ ان شعراء کو یہ قدرت عطا فرماتا ہے جو تلامیذ الرحمن ہونے کا شرف رکھتے ہیں، حضرت لبید نے ریتلے ٹیلوں پر بارشی پانی سے بننے والی لکیروں کو ان پرکشش حروف سے تشبیہ دی ہے جو کسی قلم کا کرشمہ ہوتے ہیں :
وجلا السیول عن الطلول کأنها
زبر تجد متونا أقلامها
’’ٹیلوں سے سیل آب یوں بہہ نکلا جیسے قلم تختیوں پر نقش بناتے ہیں!‘‘
مگر ڈاکٹر طاہرالقادری کے قلم کرشمہ ساز کے یہ نقوش ترجمہ تو کتاب اللہ کے حضور نذرانہ عقیدت ہے جس کے سجدہ ہائے تلاوت تو ہر مومن کے ایمان کا تقاضا ہے لہذا اس فرہاد قلم کی لائی ہوئی اس جوئے شیر کے روح پرور اور دلکش مقامات وقوف تو ایمان کا تقاضا اور دل کی عقیدت کا قدرتی نتیجہ تھا! علم یا معرفت کے بجائے لفظ ’’عرفان‘‘ معنی کی گہرائی اور فکر کی گیرائی پر دلالت کرتا ہے، اپنی فرہادانہ کاوش قلم کو یہ نام دینا ایک سعادت حظ بھی ہے اور حسن انتخاب پر کمال قدرت کی روشن دلیل بھی! ڈاکٹر قادری نے کتاب اللہ کا ترجمہ مکمل کرلیا ہے بہت بڑی سعادت ہے اور پھر حسن ترجمہ کے ساتھ ساتھ جمال تسمیہ تو ان کے ذوق فراواں اور فکر بلند کی نشانی ہے!
قلت وقت اور جگہ کی تنگی کا تقاضا یہ ہے کہ عرفان القرآن کے قاری کو چند ایک مقامات وقوف و تفکر کی طرف متوجہ کیا جائے۔ ترجمہ قرآن کو حواشی سے بوجھل بنانے کے بجائے یہ بہتر ہے کہ تفسیر لکھ دی جائے، قادری صاحب کے اس ترجمہ میں آپ کو حواشی کا یہ تفسیری بوجھ کم ہی نظر آئے گا، دامن اردو چونکہ بہت تنگ ہے اس لئے کتاب اللہ کے اعجاز معنی کی وسعتوں کو سمیٹنے کے لئے مترجمین اکثر و بیشتر بریکٹ استعمال کرتے ہیں، بریکٹ کے اندر یہ اضافی الفاظ اردو کی تنگ دامانی کا علاج ہے مگر قادری صاحب نے یہ ’’علاج‘‘ بھی اشد ضرورت اور بے حد تنگی کے وقت استعمال کیا ہے، اگر مترجمین قرآن ان اضافی الفاظ کو سلیس اردو کا حصہ سمجھتے ہوئے بریکٹ کے بغیر ہی جملوں میں بھردیا کریں تو شاید قارئین بریکٹ کی الجھنوں سے نجات پاجائیں، جب ان الفاظ کی ضرورت ہے ہی تو انہیں اپنے حسن بیان کا حصہ بنایئے اور ترجمہ کو سلیس و رواں رکھیئے، تاہم عرفان القرآن کے ترجمہ میں ایسے بریکٹ بہت کم ہیں اور اشد ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔
اس ترجمہ کے چند ایک مقامات وقوف و تفکر قارئین کی نذر کرنا وقت کا تقاضا معلوم ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے، اپنے بندوں کے دلوں میں جو چاہے ڈال دے، اس نے انسان کو حیوان ناطق۔۔ بولنے والا جانور۔۔ بنایا ہے اور وہ بولتا ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ ’’مُلْہِمْ‘‘ ہے اور جو چاہے، جب چاہے اپنے بندوں کے دلوں میں القاء و الہام فرماتا ہے اسی طرح کلام بھی اس کی ایک صفت ہے اور وہ جب چاہے جیسے چاہے اپنے بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے، القاء اور الہام تو ہر دلِ مخلوق کا حق ہے مگر کلام صرف اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور نبیوں سے مختص ہے، اس کی کیفیت و حقیقت یا تو حبیب رب العالمین مصطفی ﷺ جانتے ہیں اور یا موسی کلیم اللہ علیہ السلام کو یہ شرف عطا ہوا مگر اللہ تعالیٰ کیسے کلام فرماتے ہیں؟ یہ علم کلام کا مسئلہ ہے ہم عام مسلمانوں کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس الہام و کلام پر دل سے ایمان لائیں اور بس!
مگر کچھ اوصاف و خصائص انسانی ایسے بھی ہیں جو بظاہر ناگوار سے لگتے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ الہام و کلام کی طرح نہیں ہوتے جیسے مثلا مذاق اڑانا اور تمسخر و استہزاء کرنا، تو کیا اللہ جل شانہ بھی ایسا کرتے ہیں؟ معاذ اللہ عموماً مترجمین قرآن ’’استہزائ‘‘ کا ترجمہ ٹھٹھا کرنا اور مذاق اڑانا اور ’’مکر‘‘ کا ترجمہ چال چلنا یا سازش کرنا ہی کرتے ہیں مگر کیا ان اوصاف کلام کی نسبت اللہ تعالیٰ سے بھی جائز ہے؟ یا استہزاء اور مکر جب اللہ کی نسبت سے ہو تو اس کا ترجمہ زیادہ مناسب الفاظ میں کرکے ایسی قباحتوں کے جوابات تلاش کرنے سے بچا جاسکتا ہے؟ جناب شیخ الاسلام اسی آخری روش کے قائل ہیں جو تمام مشکلات کا حل اور ہر سوال کا جواب تلاش کرنے کی آزمائش ہی نہیں ڈالتی! چنانچہ وہ سورہ بقرہ کی آیت 15 کا ترجمہ یوں فرماتے ہیں۔
اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۱۵
’’اللہ انہیں ان کے مذاق کی سزا دیتا ہے اور انہیں ڈھیل دیتا ہے (تاکہ وہ خود اپنے انجام تک جاپہنچیں سو وہ خود) اپنی سرکشی میں بھٹک رہے ہیں‘‘
یہ تو ان منافقین کی بات تھی جو اللہ تعالیٰ کے حبیب پاک ﷺ اور اہل اسلام کے خلاف گھٹیا سازشوں اور کمینی حرکات میں منہمک رہتے تھے مگر اب بات آتی ہے ان ڈھیٹھ اور پتھر دل مکار یہودیوں کی جو سیدنا مسیح بن مریم کو ستانے، رسوا کرنے اور پھانسی دلوانے کے چکر میں تھے، اسی ضمن میں وارد ہونے والی سورۃ آل عمران کی آیت ربانی نمبر54 کا ترجمہ ڈاکٹر قادری یوں کرتے ہیں۔
وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُ ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠۵۴
’’پھر ان (یہودی کافروں) نے (عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے لئے) خفیہ سازش کی اور اللہ نے (عیسی علیہ السلام کو بچانے کے لئے) مخفی تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر مخفی تدبیر فرمانے والا ہے‘‘۔
اللہ کے نبی اور رسول، اس کے پیارے اور اطاعت گزار بندے ہیں جو اس کا پیغام بندوں تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ بلاشبہ نبی او رسول، اللہ تعالیٰ کے مقرب و محبوب لوگ ہوتے ہیں مگر نبی اور خدا میں فرق و امتیاز ہے، نبی خدا نہیں ہوتا اگرچہ خدا سے جدا نہیں ہوتا! اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک وہم پلہ نہیں ہے۔ نبی ایک نہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار تک ہیں، کسی ایک نبی کا انکار بھی کفرو بربادی ہے مگر اللہ کے برابر کسی ایک کو بھی مان لینا شرک اور گناہ عظیم ہے جو نار جہنم کا سامان ہے، نبی اور رسول بشر ہوتے ہیں اس لئے فانی ہوتے ہیں جبکہ اللہ جل شانہ حی و قیوم ہیں، قرآن کریم کی سورہ آل عمران کی آیت 144 میں اہل ایمان کو یہی فرق و امتیاز سمجھانے کے لئے فرمایا اور ڈاکٹر قادری صاحب نے اس حقیقت کو یوں حسن و خوبی کے ساتھ اردو میں ادا کیا ہے۔
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ؕ اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤی اَعْقَابِكُمْ ؕ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْـًٔا ؕ وَ سَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْنَ۱۴۴
’’اور محمد ( ﷺ بھی تو) رسول ہی ہیں (نہ کہ خدا) آپ سے پہلے بھی کئی پیغمبر (مصائب اور تکلیفیں جھیلتے ہوئے اس دنیا سے) گزر چکے ہیں پھر اگر وہ وفات فرماجائیں یا شہید کردیئے جائیں تو کیا تم اپنے (پچھلے مذہب کی طرف) الٹے پائوں پھر جائو گے (یعنی کیا ان کی وفات یا شہادت کو معاذ اللہ دین اسلام کے حق نہ ہونے پر یا ان کے سچے رسول نہ ہونے پر محمول کرو گے) اور جو کوئی الٹے پائوں پھرے گا تو وہ اللہ کا ہر گز کچھ نہیں بگاڑے گا اور اللہ عنقریب (مصائب پر ثابت قدم رہ کر) شکر کرنے والوں کو جزا عطا فرمائے گا‘‘۔
یہ ترجمہ اپنی حسن وجمال اور دلوں کے لئے سامان راحت و تسلی ہونے کے ساتھ ساتھ لمبی چوڑی تشریحات و تفاسیر سے بے نیاز کردیتا ہے! اس ترجمہ کی یہی امتیازی شان ہے۔
قرآن کریم اخبار غیب کے علاوہ قصص و عبر ماضی اور عجائبات مستقبل کی باتوں پر بھی مشتمل ہے، انسان کے لئے نامعلوم حقائق اور اسرار و رموز فطرت کی باتوں کا بھی پتہ دیتا ہے جن میں سے اکثر کو انسانی اکتشافات و ابداعات نے بے نقاب کردیا ہے اور مخبر صادق ﷺ کی باتیں فلق صبح کی طرح کھل کر واضح ہوچکی ہیں لیکن ابھی بہت کچھ باقی ہے جو ’’سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ؕ ‘‘ (41 : 53) کے حکم ربانی کے مطابق انسان کو اعتراف حقیقت پر مجبور کردیں گے۔
اس میں وہ قرآنی پیشین گوئیاں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں جن میں سے کچھ تو خود نزول قرآن کے عہد کے انسانوں نے دیکھیں۔ جیسے فتحمند ایرانیوں پر چند سالوں میں مغلوب رومیوں کی فتح اور میدان بدر میں لشکر اسلام کی اولین فتح عظیم کی خوشیاں اور ان میں سے اکثر گذشتہ ڈیڑھ ہزار سال کے دوران میں سچ ثابت ہوچکی ہیں۔ تاریخی واقعات اور حقائق ماضی بھی آیات بینات کا موضوع ہیں، یہ بھی نئی بحث و تحقیق نے درست ثابت کردیئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی اس کتاب زندہ میں مستقبل کی باتیں بھی ہیں جو اہم بھی ہیں اور دلچسپ بھی۔
نئی نئی دنیائیںسامنے آرہی ہیں جو پہلے انسان کے وہم و گمان میں نہ تھیں اور ایسی ایسی نامعلوم مخلوقات کے انکشافات ہورہے ہیں جو نہ کبھی آنکھ نے دیکھے اور نہ کان نے سنے تھے لیکن اللہ تعالیٰ بڑا رحیم وکریم اور شفیق و مہربان ہے اس نے یہ تمام باتیں ایسے اشارات میں قلب مصطفی ﷺ پر اتاریں جو انسان کے لئے حیرت وپریشانی کا باعث کبھی نہ بنے تھے مگر یہ اشارات موجود ہیں اور ان میں سے بعض منکشف ہوکر حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ اب یہ کام قرآن کریم کے مترجم کا ہے کہ وہ ان اشارات کی نشاندہی کرے جو نزول قرآن کے وقت تو مخفی تھے مگر اب سامنے آچکے ہیں۔ ان اشارات میں سے وہ بھی ہیں جو آنے والے وقتوں میں حضرت انسان کے لئے نئی سے نئی سواریوں کی شکل میں سامنے آتی رہتی ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں ہمارے فاضل مترجم ایسے اشارات سے کیسے آگاہ ہیں اور آج کے انسان کو کس طرح آگاہ کرتے ہیں۔ سورت نحل کی آٹھویں آیت ہے جس کا ترجمہ ہمارے اس دعوے کی تصدیق کرے گا۔
وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْكُبُوْهَا وَ زِیْنَةً ؕ وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۸
’’اور (اسی نے) گھوڑوں اور خچروں اور گدھوں کو (پیدا کیا) تاکہ تم ان پر سواری کرسکو اور وہ (تمہارے لئے) باعث زینت بھی ہوں اور وہ (مزید ایسی بازینت سواریوں کو بھی) پیدا فرمائے گا جنہیں تم (آج) نہیں جانتے!‘‘۔
الغرض یہ ترجمہ قرآن ہماری اسلامی لائبریریوں میں ایک قابل قدر اور پرکشش اضافہ ثابت ہوگا۔
تبصرہ