قرآنِ مجید نے ’نوری سال‘ کا تصور کس طرح پیش کیا ہے؟

زمرہ جات > سائنس و ٹیکنالوجی > طبیعیات

Play Copy

تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗ خَمۡسِیۡنَ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ﴿۴﴾

4. اس (کے عرش) کی طرف فرشتے اور روح الامین عروج کرتے ہیں ایک دن میں، جس کا اندازہ (دنیوی حساب سے) پچاس ہزار برس کا ہے٭o

٭ فِی یَومٍ اگر وَاقِعٍ کا صلہ ہو تو معنی ہوگا کہ جس دن (یوم قیامت کو) عذاب واقع ہوگا اس کا دورانیہ 50 ہزار برس کے قریب ہے۔ اور اگر یہ تَعرُجُ کا صلہ ہو تو معنی ہوگا کہ ملائکہ اور اَرواحِ مومنین جو عرشِ اِلٰہی کی طرف عروج کرتی ہیں ان کے عروج کی رفتار 50 ہزار برس یومیہ ہے، وہ پھر بھی کتنی مدت میں منزلِ مقصود تک پہنچتے ہیں۔ واﷲ أعلم بالصواب۔ (یہاں سے نوری سال (light year) کے تصور کا اِستنباط ہوتا ہے۔)

4. The angels and al-Ruh al-Amin (the Spirit) rise towards His (Throne) in a Day which measures fifty thousand years (according to the worldly scale).*

* If fi yawm is co-related to waqi’, it implies ‘50,000 year long Day of Judgement when the torment will befall’. But if it is co-related to ta‘ruju, it denotes fifty millennium year a day speed of ascension by the angels and by the souls of the believers that ascend towards Allah’s Throne. It is known to Allah alone as to what time they take to reach the destination. This generates the concept of ‘light year’.

(الْمَعَارِج، 70 : 4)