اس سورہ مبارکہ کا نام المومن ہے۔اس میں نو رکوع ہیں۔ یہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ اس سورہ کا آغاز اتنا بارعب اور پرجلال ہے کہ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ فرمایا یہ کتاب کسی انسان کی تصنیف نہیں بلکہ اسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے، وہ اللہ تعالیٰ جو عزیز علیم بھی ہے، غافر الذنب، قابل التوب اور صاحب جودوکرم بھی ہے۔ کیا ایسے خدا کی نازل کردہ کتاب میں کوئی نقص تلاش کیا جا سکتا ہے۔ دیگر مضامین کے علاوہ اس سورہ میں دو امور کی طرف خصوصی توجہ مبذول کرائی گئی ہے: کفار مکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہر بات پر جھگڑتے اور تکرار کیا کرتے۔ جس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب نازل کو اذیت پہنچتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دے رہے ہیں کہ گزشتہ اقوام کے کفار کا رویہ بھی اپنے رسولوں کے ساتھ اسی نوعیت کا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ اے میرے حبیب! اگر یہ لوگ مجھے اپنا رب تسلیم نہیں کرتے، میری وحدانیت پر ایمان نہیں لاتے تو کیا ہوا۔ دوسری چیز جو بڑی اہمیت سے اس سورہ میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دعوت حق دی اور اپنے قول کی صداقت کو روشن معجزات سے ثابت کر دیا تو اس نے اعیان حکومت کی مجلس مشاورت طلب کی۔ سورہ میں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کی توحید اور کبریائی پر تکوینی دلائل پیش کئے گئے ہیں تاکہ سننے والے کو حق الیقین نصیب ہو جائے کہ جس کی قدرت کے یہ کرشمے ہیں، وہی رب السموت والارض ہے۔